مودودی بمقابلہ جناح؟

805

شاہنواز فاروقی

شیطان کا ایک کام یہ ہے کہ وہ حق کو باطل اور باطل کو حق ظاہر کرتا ہے۔ لیکن اگر انسان کا ایمان مضبوط اور علم گہرا ہو تو شیطان بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ البتہ بھاگتے بھاگتے بھی وہ یہ کوشش ضرور کرتا ہے کہ اور کچھ نہیں تو اپنے شکار کے دل میں شک ہی پیدا کردے۔ شک کا معاملہ یہ ہے کہ انسان کے دل میں ایک بار شک پیدا ہو جائے تو وہ دیکھتے ہی دیکھتے تناور درخت بن جاتا ہے اور وہ انسان کو بنیاد سے ہلا دیتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہم پچیس تیس برسوں سے پاکستان کے سوشلسٹ، سیکولر، لبرل اور قوم پرست عناصر کو یہی کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ مولانا مودودی نے قیام پاکستان کی مخالفت کی۔ تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ اس سلسلے میں مولانا کا ایک فقرہ بھی کہیں دستیاب نہیں۔ ہم نے سیکولر اور لبرل دانش وروں اور صحافیوں کی تحریروں میں یہ بھی پڑھا کہ مولانا مودودی نے قائد اعظم کو کافر اعظم قرار دیا تھا۔ تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ کارنامہ مجلس احرار کے رہنما کا ہے اور مولانا مودودی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ بلاشبہ اب مولانا پر ان دونوں الزامات میں سے کوئی الزام شاذ ہی لگایا جاتا ہے مگر پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر نے ابھی تک ہار نہیں مانی ہے اور وہ جس طرح اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کے خلاف زہر اُگلتے رہتے ہیں اسی طرح وہ مولانا مودودی کے سلسلے میں بھی بے بنیاد الزامات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ آپ ان کے الزامات کو سو فی صد درست نہ بھی سمجھیں تو کم از کم آپ کی نظر میں مولانا مودودی کی شخصیت اور فکر مشتبہ اور متنازع ہوجائے۔
اسی سلسلے کی تازہ ترین کڑی روزنامہ ڈان کراچی کی 24 دسمبر 2017ء کی اشاعت میں شائع ہونے والا ندیم ایف پراچہ کا کالم ہے۔ کالم کا عنوان Maududi Vs Jinnah ہے۔ عنوان ہی سے ظاہر ہے ندیم ایف پراچہ نے مولانا مودودی اور قائد اعظم کو حریف پہلوانوں کی حیثیت سے تاریخ کے اکھاڑے میں اُتار دیا ہے۔ یعنی اگر کسی شخص نے ندیم ایف پراچہ کے کالم کا صرف عنوان ہی پڑھا ہو تو وہ یہ خیال کرے گا کہ مولانا مودودی اور قائد اعظم کے درمیان زبردست معرکہ آرائی ہوئی ہوگی۔ کالم کے عنوان سے یہ قیاس بھی کیا جاسکتا ہے کہ مولانا مودودی یقیناًقائد اعظم کے خلاف ہوں گے۔ اصولی اعتبار سے ندیم ایف پراچہ کا کالم اس خیال کے گرد گھومتا ہے کہ قائد اعظم پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے یا ایک سیکولر ملک میں ڈھالنا چاہتے تھے۔ اس اعتبار سے کالم میں مولانا مودودی کے ذِکر کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی لیکن اگر ایک تیر سے دو شکار کرلیے جائیں تو شکار کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔ ندیم ایف پراچہ نے یہی کیا ہے۔ مگر انہوں نے مولانا مودودی اور قائداعظم کے حوالے سے کہا کیا ہے؟۔
ندیم ایف پراچہ نے اپنے کالم میں کسی پروفیسر عثمان قاسمی کے مضمون کا حوالہ دیا ہے، ندیم ایف پراچہ کے بقول پروفیسر عثمان قاسمی نے لکھا ہے کہ مولانا مودودی نے اپنے رسالے ’’تفہیم القرآن‘‘ کے نومبر 1939ء کی اشاعت میں قائد اعظم پر قابل اعتراض تبصرہ کیا ہے۔ ندیم ایف پراچہ اور ان کے پروفیسر عثمان قاسمی کے بقول مولانا کے فقرے کا ترجمہ یہ ہے۔
The whol world knows that he (Jinnah) does not even know the basics of Islam.
ترجمہ:۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ وہ (یعنی جناح) اسلام کی مبادیات سے بھی آگاہ نہیں ہیں۔
پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانش ور تاثر دیتے ہیں کہ وہ علم کا سمندر اور حق گوئی کا بلند مینار ہیں مگر ندیم ایف پراچہ کے علم یا معلومات کا یہ عالم ہے کہ انہیں یہ تک معلوم نہیں کہ مولانا مودودی کا مضمون ’’تفہیم القرآن‘‘ میں نہیں ’’ترجمان القرآن‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ تفہیم القرآن مولانا کا جاری کردہ رسالہ نہیں بلکہ ان کی تفسیر ہے۔ اتفاق سے ندیم ایف پراچہ نے کالم میں ایک جگہ نہیں دو جگہ ترجمان القرآن کو تفہیم القرآن لکھا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے رسالے کا نام اتفاقاً غلط نہیں لکھا۔ بلکہ انہیں واقعتا ترجمان القرآن اور تفہیم القرآن کا فرق معلوم نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے جن پروفیسر صاحب کے مضمون کا ذِکر کیا ہے انہوں نے بھی یہی غلطی کی ہو۔ بہرحال یہ تو ایک معمولی بات ہے۔ ہم نے ندیم ایف پراچہ کا کالم پڑھنے کے بعد دسمبر 1939ء کا ترجمان القرآن دیکھا تو ’’انکشاف‘‘ ہوا کہ مولانا نے پورے مضمون میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ قائد اعظم اسلام کی مبادیات نہیں جانتے اور ساری دنیا یہ بات جانتی ہے۔ یہ ندیم ایف پراچہ اور ان کے پروفیسر عثمان کا دوسرا جھوٹ ہے۔ البتہ مولانا کے مضمون میں قائد اعظم پر واقعتاً تنقید موجود ہے۔ مولانا نے کیا لکھا۔ انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔
’’مگر افسوس کہ لیگ کے قائد اعظم سے لے کر چھوٹے مقتدیوں تک ایک بھی ایسا نہیں جو اسلامی ذہنیت اور اسلامی نظر سے دیکھتا ہو۔ یہ لوگ مسلمان کے معنی و مفہوم اور اس کی مخصوص حیثیت کو بالکل نہیں جانتے۔ ان کی نگاہ میں مسلمان بھی ویسی ہی ایک قوم ہیں جیسی دنیا میں دوسری قومیں ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہر ممکن سیاسی چال اور ہر مفید مطلب سیاسی تدبیر سے اس قوم کے مفاد کی حفاظت کر دینا ہی بس اسلامی سیاست ہے۔ حالاں کہ ایسی ادنیٰ درجے کی سیاست کو اسلامی سیاست کہنا اسلام کے لیے ازالہ حیثیت عرضی سے کم نہیں‘‘ (ترجمہ القرآن۔ نومبر 1939۔ بحوالہ تحریک آزادی ہند اور مسلمان۔ حصہ دوم۔ ایڈیشن 15۔ صفحہ41)
اس سلسلے میں پہلی بات تو عرض ہے کہ مولانا مودودی نے یہ نہیں کہا کہ قائد اعظم اسلامی سیاست نہیں بلکہ سیکولر سیاست کررہے ہیں بلکہ انہوں نے کہا ہے کہ وہ اسلامی سیاست ہی کررہے ہیں مگر مولانا کے بقول اس سیاست میں گہرائی کم ہے اور اس کا تناظر درست نہیں۔ اس مسئلے کو سمجھنے اور واضح کرنے کے لیے ہمیں اقبال سے رجوع کرنا ہوگا۔ اقبال نے کہا ہے۔
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
یا اقبال نے کہا ہے؂
الفاظ و معانی میں تفادت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور
اسی طرح اقبال نے فرمایا ہے؂
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ
مذکورہ بالا اقتباس میں مولانا کا موقف بھی تقریباً یہی ہے۔
اس معاملے کا درست پہلو یہ ہے کہ مولانا نے خوامخواہ کسی ’’تاثر‘‘ کی بنیاد پر رائے نہیں دی بلکہ مولانا نے آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کی ایک قرار داد کے حوالے سے تبصرہ کیا۔ یہ قرار داد 18 ستمبر 1939ء کو منظور ہوئی تھی۔ یعنی قرار داد 18 ستمبر 1939ء کو منظور ہوئی اور مولانا نے اس پر تبصرہ دو ماہ بعد نومبر 1939ء میں کیا۔ مگر قرار داد میں ایسی کیا بات تھی جس پر مولانا نے تبصرہ ضروری سمجھا؟۔ یہ قرار داد دوسری عالمی جنگ کے حوالے سے منظور کی گئی تھی اور اس میں کہا گیا تھا کہ ’’(مسلم لیگ کی) ورکنگ کمیٹی کو پولینڈ، انگلستان اور فرانس سے گہری ہمدردی ہے۔ بایں ہمہ وہ محسوس کرتی ہے کہ آزمائش کی اس گھڑی میں برطانیہ کو اس وقت تک مسلمانوں کی مدد اور تعاون حاصل نہیں ہوسکتا کہ جب تک کہ ملکہ معظم کی حکومت اور وائسرائے کانگریسی صوبوں میں جہاں مسلمانوں کا مال محفوظ ہے، نہ جان، عزت محفوظ ہے نہ آبرو، جہاں ان کے ابتدائی حقوق کو نہایت بے رحمی سے کچلا جارہا ہے، ان کے ساتھ حق و انصاف نہیں کرتی‘‘۔
اس قرار داد کا مطلب یہ ہے کہ مسلم لیگ برطانوی سامراج سے سودے بازی کررہی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی کہ ہم عالمی جنگ میں تمہارے مددگار اس وقت بنیں گے جب تم ہندوستان میں ہمیں ہندوؤں کے مظالم سے نجات دلاؤ گے۔ اس سلسلے میں مولانا مودودی کے اعتراض کی بنیاد یہ ہے کہ مسلمانوں کا دین اصولوں کی پاسداری سکھاتا ہے ان پر سودے بازی نہیں۔ جنگ عظیم دوم انسانیت کے ساتھ ظلم کی ہولناک ترین صورت تھی اور کسی بھی مفاد کے لیے اس جنگ میں ظالموں کی حمایت کا کوئی مذہبی یا اخلاقی جواز نہیں تھا۔
اس سلسلے میں تیسری بات یہ ہے کہ مولانا نے قائد اعظم پر نومبر 1939ء میں اعتراض کیا۔ یہ مسلمانوں کی قیادت کے حوالے سے قائد اعظم کی زندگی اور فکر کا ابتدائی اور تشکیلی دور تھا۔ اس وقت تک لاہور میں وہ قرار داد بھی منظور نہ ہوئی تھی جس نے قیام پاکستان کی جدوجہد اور قائد اعظم کے مذہبی تصورات کو واضح صورت مہیا کی۔ قائد اعظم کوئی مذہبی اسکالر یا مفتی تو تھے نہیں کہ ان کی کتب موجود ہوتیں اور ان کو پڑھ کر مولانا مودودی سمیت کوئی بھی شخص ان کی مذہبی فکر اور مذہبی تناظر کے حوالے سے کوئی بھی رائے قائم کرسکتا تھا۔ قائد اعظم نے اسلام، قرآن پاک، سیرت طیبہ، شریعت مطاہرہ، اسلامی تہذیب کے حوالے سے جو کچھ بھی کہا 1940ء سے 1948ء کے درمیان کہا۔ جب کہ قائد اعظم پر مولانا کا تبصرہ نومبر 1939ء میں سامنے آیا۔ یہاں ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ قائد اعظم کوئی عالم دین نہیں تھے، نہ انہوں نے کبھی خود کو عالم دین کہا۔ اقبال قائد اعظم سے کہیں زیادہ دین کا فہم رکھتے تھے مگر اقبال تک نے خود کو کبھی عالم دین باور نہ کرایا بلکہ وہ ہمیشہ دینی معاملات میں علما سے رجوع کرتے ہوئے پائے گئے۔ ویسے بھی دینی معاملات میں قائد اعظم حجت ہیں، نہ اقبال، نہ مولانا مودودی۔ دین پر سب سے بڑی حجت قرآن و سنت ہیں۔ دین کے دیگر شارحین کی اہمیت اس کے بعد ہے۔
ندیم ایف پراچہ نے اپنے کالم میں ایک اور مقام پر کئی جھوٹ گھڑے ہیں اور کئی غلط بیانیاں کی ہیں۔ ندیم ایف پراچہ نے لکھا۔
“in the february 1946 issue of the same journal moududi wrote that the ulema joining jinnah’s muslim League will suffer the same fate as ulma in turkey did at the hands of the secular turkish nationalist kamal ataturk. moududi wrote that this was because the fateof the pakistan movement. lay in the hands of those believed in a secular mode of politics and state.”
ہم نے ترجمان القرآن کے فروری 1946ء کے شمارے میں مولانا کا مضمون دیکھا تو ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ مولانا نے مضمون میں کہیں نہیں لکھا کہ مسلم لیگ میں شامل ہونے والے علما کا بھی وہی انجام ہوگا جو مصطفی کمال کا ساتھ دینے والے علما کا ترکی میں ہوا۔ نہ ہی مولانا نے پورے مضمون میں کہیں یہ تحریر کیا ہے کہ تحریک پاکستان کی قیادت ایسے افراد کے ہاتھ میں ہے جو ’’سیکولر سیاست‘‘ اور ’’سیکولر ریاست‘‘ کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ مولانا نے کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔
’’میں مانتا ہوں کہ مسلم لیگ کے حلقے میں ایسے لوگوں کا بھی ایک بہت بڑا گروہ شامل ہے جو اخلاص کے ساتھ مسلمان ہیں اور سچے دل سے اسلام کی برتری چاہتے ہیں، مگر مجھے ان کی سادہ لوحی پر بڑا ترس آتا ہے۔ یہ بیچارے اسی نادانی کا ارتکاب کررہے ہیں جس کا ارتکاب ترکی کے بہت سے نیک مسلمانوں نے پہلی جنگ عظیم کے بعد کیا تھا اور اس کا بُرا انجام دیکھ لیا۔ انہوں نے بھی اسی طرح قومی تحفظ کی خاطر (اور ’’مسلمان قوم‘‘ کا تحفظ تو ایک مقدس مذہبی کام بن ہی جاتا ہے) مصطفی کمال اور اس کی قوم پرست پارٹی کو زمام کار سونپی تھی۔ وہ بھی اس طرح مذہبی تاویلیں کرکے لادینی کی طرف اس کی پیش قدمی گوارا کرتے رہے‘‘۔
اس مضمون میں مولانا نے ایک اور جگہ لکھا۔
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ عام مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے اسلام کا نام بہت لیا جاتا ہے اور ایسی نمائشی باتیں بھی کردی جاتی ہیں جن سے لیگ کے اکابر کے گہرے جذبہ دینی کا ثبوت بہم پہنچ جائے۔ مگر پورے نظام کی کار فرمائی ایک ایسے طبقے کے ہاتھ میں ہے جو زندگی کے جملہ مسائل میں دین کے بجائے دنیوی (secular) نقطہ نظر سے سوچنے اور کام کرنے والا ہے۔ اسلام کے بجائے مغربی اصول حیات کا معتقد اور مقلد ہے۔ (ترجمان القرآن۔ فروری 1946۔ بحوالہ تحریک آزادی ہند اور مسلمان۔ حصہ دوم۔ صفحہ233-234)۔
مولانا کے مضمون کے ان اقتباسات کو دیکھا جائے تو مولانا یہ کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ مسلم لیگ بظاہر اسلام اور اسلامی ریاست کے قیام ہی کی جدوجہد کررہی ہے مگر وہ مسلم قوم پرستی سے اوپر نہیں اُٹھ رہی ہے اور اس کے اکابرین اسلام سے زیادہ مغرب کے اصولِ حیات کے قائل ہیں۔ اس میں نہ کہیں قائد اعظم اور مسلم لیگ کی مخالفت ہے نہ کوئی مودودی بمقابلہ جناح کی صورت حال ہے۔ یہ مولانا کا ایک ایسا بصیرت افروز تجزیہ ہے جو بدقسمتی سے قائد اعظم کے انتقال کے بعد حقیقت بنتا چلا گیا۔ اس کا ایک ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ اب پاکستان آئینی اعتبار سے ایک ’’اسلامی ریاست‘‘ ہے مگر اس اسلامی ریاست میں اسلام کو آئین کے قید خانے سے نکلنے کی اجازت نہیں۔ چناں چہ ریاست پاکستان کا سارا کاروبار مغرب کے اصولوں کے مطابق چل رہا ہے۔ مولانا مودودی کے تجزیے کے مطابق اس وقت ہمارا ظاہر اسلامی ہے اور باطن سیکولر۔ یہی معاملہ ہمارے حکمران طبقے کا ہے۔