کیوں گئے اور کیا بات کرکے آئے

178

میاں منیر احمد

نواز شریف سعودی عرب گئے اور واپس بھی آگئے ہیں‘ واپسی پر پنجاب ہاؤس میں پر ہجوم پریس کانفرنس بھی کر چکے ہیں تاہم یہ سوال ابھی تک موجود ہے کہ وہ سعودی عرب کیوں گئے تھے؟ انہوں اپنی پریس کانفرنس میں بہت کچھ کہا خوب کہا، اس میں سب کچھ تھا مگر دورہ سعودی عرب غائب تھا‘ البتہ نئی دھمکیاں تھیں ایک بار پھر کہا کہ تنگ نہ کرو ورنہ راز کھول دوں گا۔ دھمکیاں دیتے ہوئے اس حد تک چلے گئے ہیں کہ آئندہ انتخابات کے نتائج بھی بتادیے! ابھی تو انتخابات کا اعلان نہیں ہوا، لیکن نوازشریف ان میں دھاندلی کے منصوبے کی نشاندہی کر رہے ہیں کہتے ہیں کہ ایک لاڈلے کو آگے لانے کے لیے سازش کی جا رہی ہے، جب آپ پریس کانفرنس میں کوئی انکشاف نہیں کرتے بلکہ دھمکی دیتے ہیں تو اس کا قطعاً مثبت تاثر نہیں جاتا، اس سے یہی لگتا ہے کہ آپ اپنی زبان بند رکھنے کی قیمت مانگ رہے ہیں۔ نوازشریف جیسے بڑے رہنما کو یہ بیانیہ بالکل بھی زیب نہیں دیتا۔ کسی کو بیک ڈور سے اقتدار میں کیسے لایا جاسکتا ہے؟ کیا نوازشریف اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے اور فوج یا اسٹیبلشمنٹ یہ کھیل کھیلتی ہے، اگر ان کی اس بات کو سچ مان لیا جائے تو پھر سب سے زیادہ بار تو وہ خود اقتدار میں آئے ہیں، کیا انہیں بھی اسی طرح اقتدار میں لایا جاتا رہا ہے۔ کیا اس راستے کو روکنے کا یہی طریقہ ہے جو انہوں نے پریس کانفرنس میں بیان کیا؟ اس پریس کانفرنس کا یہ پیغام ضرور لیا جاسکتا ہے کہ نوازشریف اپنی نا اہلی کے بعد سے اپنی شخصیت کو مجروح کر رہے ہیں، ان کے روّیے اور لب و لہجے میں شکست خوردگی کے آثار روز بروز بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ انہیں اب صرف سیاست پر توجہ دینی چاہیے، جو وہ نہیں دے رہے اور ان کا سارا بیانیہ فوج اور عدلیہ کے خلاف ہے، انہیں کیا ضرورت تھی کہ وہ چیف جسٹس ثاقب نثار کے بارے میں یہ کہتے کہ وہ ہسپتالوں اور نجی میڈیکل کالجوں کو کیوں چیک کر رہے ہیں؟ ظاہر ہے چیف جسٹس کے پاس سوموٹو کا آئینی اختیار بھی موجود ہے وہ کسی بھی معاملے کا از خود نوٹس لے سکتے ہیں۔
ان کی نا اہلی تو ایک اقامے پر ہوئی ہے دیگر حوالوں سے نا اہلی کا ثبوت بھی مل رہا ہے، ابھی تو ان کی جماعت اقتدار میں ہے ، اگر ان کی حکومت نہ ہوتی اور انہیں اس قدر پروٹوکول اور سہولتیں نہ مل رہی ہوتیں تو نجانے ان کی یہ بے چینی کیا رنگ دکھاتی؟ یہ کیسی بے چارگی ہے جو وہ قوم کے سامنے رکھ رہے ہیں؟ اس طرح تو وہ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کے بغیر کوئی بھی انتخابات میں اکثریت حاصل نہیں کرسکتا تو کیا 2013ء کے انتخابات واقعی آر اوز اور جنرل کیانی کی حمایت سے جیتے گئے تھے؟ کیا نوازشریف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انہیں نا اہل کرکے دھاندلی کی بنیاد رکھ دی گئی ہے؟
نوازشریف کے لیے اب بھی بہترین موقع یہ ہے کہ وہ نیب عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کریں نیب کیسوں میں ان کی بریت سے ایک بہت بڑا اخلاقی جواز مل جائے گا کہ نوازشریف واقعی صادق و امین ہیں، ان کی نا اہلی ختم ہونی چاہیے، مگر نوازشریف ایسا نہیں کر رہے، ان کی ساری توجہ عدالتوں اور ججوں پر تنقید کرنے کے لیے وقف نظر آتی ہے بہتر راستہ تو یہی ہے کہ نوازشریف ایک طرف مسلم لیگ (ن) کی بھرپور عوامی رابطہ مہم چلائیں اور دوسری طرف انتخابات کو صاف، شفاف بنانے کے لیے اپنی تمام کوششیں اور تجربات بروئے کار لائیں۔ مسلم لیگ (ن) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے سب سے زیادہ انتخابات لڑنے کا تجربہ ہے۔ اس کے امیدوار وہ لوگ ہیں، جنہوں نے ایک سے زائد بار انتخابات میں حصہ لیا ہے۔ وہ پولنگ والے دن کی تمام نزاکتوں سے آگاہ ہیں، اس لیے نواز شریف ان کی مہارت اور تجربے کو کام میں لائیں، اصل چیز تو انتخابی مہم ہے۔ جو پارٹی انتخابی مہم کو جاندار بنانے میں کامیاب رہی، وہ فتح کے قریب ہو جائے گی نواز شریف اگر اپنے ترقیاتی کاموں اور لوڈشیڈنگ کے خاتمے جیسی باتوں کو اپنا بیانیہ بنائیں اور یہ راگنی بند کر دیں کہ انہیں کیوں نکالا اور ججوں کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ عوامی نمائندے کو نااہل کریں؟ تو ان کے لیے زیادہ سود مند ہوگا۔ اگر وہ ’’کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے‘‘ والی حکمت عملی اختیار کریں گے تو گویا مسلم لیگ (ن) کو بھی اپنے ساتھ نا اہل کرا بیٹھیں گے اگر وہ مریم نواز کو مستقبل کی سیاست میں آگے لانا چاہتے ہیں تو ان کی تربیت کریں۔ انہوں نے جو بیانیہ آج کل اختیار کیا ہوا ہے اور جس میں وہ ججوں اور جرنیلوں پر براہ راست تنقیدی حملے کرتی ہیں، وہ ان کی سیاست میں کامیابی کو نقصان پہنچا سکتا ہے نوازشریف خود غور کریں کہ نااہلی کے بعد سے انہیں کتنے موقف بدلنے پڑے ہیں۔ ایک بڑے لیڈر کے طور پر اپنی ذات کی نفی کرکے قوم اور ملک کے بارے میں سوچیں اور فیصلے کریں۔