عارف بہار
ذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف نو جماعتی قومی اتحاد کا نواں اور آخری ستارہ ریٹائرڈ ائر مارشل اصغرخان کی صورت بھی غروب گیا۔ اس کہکشاں میں پیر صاحب پگارہ، میاں طفیل محمد، خان عبدالولی خان، سردار عبدالقیوم خان، مولانا شاہ احمد نورانی جیسی شخصیات شامل تھیں۔ ملک کے نامور سیاست دان ریٹائرڈ ائر مارشل اصغر خان اپنی زندگی کی چھیانوے برس کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے اور یوں پاکستان کے قیام سے پہلے شروع ہونے والی جرأت، جدوجہد، حق گوئی اور دیانت داری پر محیط ایک طویل تاریخ اپنے فطری انجام کو پہنچ گئی۔
ائر مارشل اصغر خان کا گھرانہ پرانے وقتوں میں درہ آدم خیل تیرہ سے متحدہ ریاست جموں وکشمیر کے دوسرے بڑے شہر جموں منتقل ہوا تھا ان کا تعلق آفریدی خاندان سے تھا اور ان کے والد بریگیڈئر رحمت اللہ ڈوگرہ فوج میں اپنی عسکری خدمات انجام دیتے رہے۔ ایچی سن کالج لاہور، پرنس ویلز رائل انڈین ملٹری کالج میں اپنی تعلیم اور تربیت کے مدارج طے کرتے ہوئے وہ برق رفتاری کے ساتھ آگے بڑھتے چلے گئے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد انہوں نے برطانوی فوج میں اپنی خدمات انجام دیتے ہوئے برما کے محاذ پر بھی کام کیا۔ قیام پاکستان کے وقت متحدہ ہندوستان کی فضائیہ کے اثاثہ جات تقسیم کرنے کی غرض سے جو کمیٹی قائم کی گئی تھی اصغر خان اس کے رکن بھی تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کے گھرانے نے جموں سے پاکستان منتقل ہونے کو ترجیح دی اور یوں ان کی ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ حسین شہید سہروردی کے دور میں انہیں پاک فضائیہ کا سربراہ بنایا گیا اور پینسٹھ کی جنگ میں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ اس دور میں انہوں نے پاکستان کے لیے امریکا سے بڑے پیمانے پر جنگی ساز وسامان اور لڑاکا طیارے حاصل کیے۔ اپنے کیرئیر میں انہوں نے بے شمار اعزازات حاصل کیے۔ وہ ملازمت اور سیاست دونوں میں نمایاں اور ممتاز رہے۔ ایوب خان کے قریب رہنے کی وجہ سے وہ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی قریب سے جانتے تھے اسی لیے دونوں میں کبھی بن نہ سکی جب اصغر خان نے 1970میں تحریک استقلال کے نام سے ایک سیاسی جماعت قائم کی تو وہ ذوالفقار علی بھٹو کے کڑے ناقد بن گئے۔
اکہتر کی جنگ میں وہ شیخ مجیب الرحمن کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے اور اس مناقشے میں ان کی اپروچ خاصی ریڈیکل اور عوامی جذبات کے برعکس تھی۔ وہ انتخابات کے فیصلے کے مطابق عوامی لیگ کو اقتدار کی منتقلی چاہتے تھے۔ اسی لیے اصغر خان اکہتر کی صورت حال میں عملی طور پر غیر متعلق اور کھچے کھچے رہے۔ تحریک استقلال کے پلیٹ فارم سے انہوں نے سیکولر اقدار کی بات کر کے بھٹو صاحب سے سوشلزم اور سیکولر ازم کا کارڈ چھیننے کی کوشش کی۔ ملک کے کئی نامی گرامی سرمایہ دار اور جاگیر دار گھرانے، متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے وکلا، سیاسی کارکن بڑی تعداد میں تحریک استقلال کے جھنڈے تلے جمع ہوتے چلے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نو جماعتی قومی اتحادی میں وہ ایک مقبول اور متبادل قیادت سمجھے جاتے رہے۔ ان کی جماعت کا مقبول نعرہ ’’نو ستارے ایک قرآن، جیوے جیوے اصغر خان‘‘ تھا۔
جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا میں ان کا سیاسی ستارہ گردش میں آتا چلا گیا اور ان کی سیاسی جماعت کے زوال کا آغاز ہوگیا۔ منظم اور بڑی سیاسی جماعتوں کی قطع وبرید چوں کہ مارشل لا کی ضرورت تھی تحریک استقلال بھی اسی نظری�ۂ ضرورت کا شکار ہوتی چلی گئی۔ طاقتور سیاسی گھرانوں نے تحریک استقلال کو خیر باد کہنا شروع کردیا اور یوں ائر مارشل تنہا ہوتے چلے گئے۔ اس تنہائی کی ایک وجہ مارشل کی چھتر چھائے میں سیاسی اقدار کی تبدیلی تھی۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل ہی میں سیاست میں روپے پیسے کے استعمال کی روایت مضبوط ہوئی اور دولت کی ریل پیل سیاسی اقدار کو گھن کی چاٹتی چلی گئی۔ اس بدلتے ہوئے سیاسی کلچر میں تحریک استقلال اور اصغر خان سیاست میں تنہا اور ناکام ہوجانے کا استعارہ بن کر رہ گئے مگر ائر مارشل سے امین اور صادق سیاست دان کا سرٹیفکیٹ کوئی بھی چھین نہ سکا۔ بطور ائر مارشل اور پی آئی اے کے چیئرمین ان کا دامن کرپشن کے داغوں سے پاک رہا اور انہیں سیاست کا مسٹر کلین سمجھا جاتا رہا۔ نوے کی دہائی میں ان کی وجہ شہرت ایک خفیہ ادارے کی طرف سے من پسند سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم کا مقدمہ تھا۔ اصغر خان نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی تھی کہ اس خفیہ ادارے سے رقم لینے والے سیاست دانوں کے نام سامنے لائے جائیں۔ کئی برس تک سماعت کے باجود یہ کیس نظریہ ضرورت کی ٹوکری کی نذر ہوگیا کیوں کہ اس میں طاقتور اشرافیہ کا کردار بھی زیادہ اچھا نہیں تھا۔
جنرل مشرف کے دور میں جب جسٹس افتخار محمد چودھری کو نظر بندکر دیا تھا اور کسی کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں تھی تو چند دن بعد ہی ائر مارشل اصغر خان صبح کی سیر کرتے ہوئے بلا روک ٹوک ان کے گھر میں داخل ہوگئے اور باہر آکر انہوں نے جسٹس افتخار کی صحت وسلامتی کے حوالے سے خبر سنائی تھی۔ یہ باور کیا گیا تھا کہ ائرمارشل نظر بند چیف جسٹس کے نام کسی اہم شخصیت کا اہم پیغام لے کر گئے تھے۔ اس کے بعد سے جسٹس افتخار کا لہجہ اور رویہ مزید بے لچک ہوتا چلا گیا۔ نوے کی دہائی میں جب کشمیر میں ایک بے مثال جدوجہد شروع ہوئی تو ائرمارشل اصغر خان نے مسئلہ کشمیر کے حل حوالے سے بھی ایک ریڈیکل اپروچ اپنائی۔ انہوں نے جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین مرحوم امان اللہ خان کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں ایک چونکا دینے والا موقف اپنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں ریاست جموں وکشمیر سے اپنی افواج کو نکال کر اسے ایک مخصوص مدت کے لیے اقوام متحدہ کی نگرانی میں دینے کا اہتمام کریں اور اس کے بعد رائے شماری کرکے کشمیریوں کو اپنے مقدر کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے۔ یہ فارمولہ جسے عین ممکن ہے کسی بیرونی حلقے کی حمایت بھی حاصل ہوتی زیادہ پزیرائی حاصل نہ کر سکا۔ ان جیسے باصلاحیت، صاف گو، دیانت دار کردار معاشرے میں اب ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔