عدلیہ میں اصلاحات کررہے ہیں ‘ پھر کوئی نہ کہے مداخلت ہورہی ہے‘ چیف جسٹس

433

اسلام آباد(مانیٹر نگ ڈ یسک +آن لائن)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ عدلیہ میں ایک ہفتے میں اصلاحات لائیں گے لیکن پھر کوئی نہ کہے کہ ہم مداخلت اور تجاوز کررہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ میں سی ڈی اے قوانین میں عدم مطابقت سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے کی۔وزیر کیڈ طارق فضل چودھر ی عدالت میں پیش ہوئے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اصلاحات لانا پارلیمنٹ کا کام تھا جو ہم لارہے ہیں،میری توجہ تعلیم، صحت اور عدلیہ پرہے،سی ڈی اے قوانین میں عدم مطابقت ہے،بہت سے معاملات میں قواعد و ضوابط تک نہیں بنائے گئے،بتائیں یہ سارے معاملات ٹھیک کرنے میں کتنا وقت لگے گا؟۔طارق فضل چودھر ی نے عدالت سے استدعا کی کہ معاملات ٹھیک کرنے کے لیے 3ماہ کی مہلت دے دیں،اس
پر چیف جسٹس نے وزیر مملکت کیڈ کو ہدایت کی کہ3 نہیں2 ماہ میں سارا کام مکمل کریں۔کیس کی سماعت 2 ماہ تک ملتوی کر دی گئی۔علاوہ ازیں عدالت عظمیٰ نے سانحہ کوئٹہ ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ بلوچستان حکومت دہشت گردی ختم کرنے میں سنجیدہ نہیں ،17برس سے دھماکے ہورہے ہیں،صوبائی حکومت سوئی رہی۔ پیر کو عدالت عظمیٰ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سانحہ کوئٹہ ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی۔ جسٹس دوست محمد خان نے کوئٹہ کمیشن رپورٹ پر عملدرآمد نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت دہشت گردی ختم کرنے میں سنجیدہ نہیں لگتی، قانون سازوں کو آئین بھی پڑھا دیں، شہریوں کا تحفظ ریاست کی ذمے داری ہے، ہائی کورٹ نے 2012ء میں فرانزک لیب کے قیام کی ہدایت کی تھی۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے ایک جج نے سانحہ کوئٹہ کے ملزمان کو ٹریس کیا،ہر سانحے پر تحقیقات کے لیے عدالت عظمیٰ جج فراہم نہیں کر سکتی، تحقیقات پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے، فرانزک لیب کے لیے مختص کروڑوں روپے ہضم ہوگئے۔جسٹس دوست محمد نے کہا کہ کمیشن سفارشات پر عملدرآمد نہ ہونا بھی جرم ہے،ہر بجٹ میں 5 ملین بھی لگاتے تو فرانزک لیب تیار ہوچکی ہوتی۔اس موقع پر جسٹس آصف کھوسہ نے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہ آپ کو تو رپورٹ پڑھنا بھی نہیں آرہی اس پر عملدرآمد کیا ہوگا۔ دوسری جانب پی ایم ڈی سی کونسل کے وجود اور میڈیکل کالجز کی داخلہ پالیسی سے متعلق کیس میں عدالت عظمیٰ نے ڈاکٹر عاصم حسین کو فریق بنا کر(کل ) 10جنوری کو طلب کر لیا جبکہ میڈیکل کالجز کا الحاق کرنے والی یونیورسٹیز کی تفصیلات بھی طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت (آج) منگل تک ملتوی کر دی۔ کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔دوران سماعت پی ایم ڈی سی کے وکیل اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ 2012 ء میں پی ایم ڈی سی قوانین میں ترمیم کی گئی،پی ایم ڈی سی کونسل کو نجی میڈیکل کالجز کے نمائندوں نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قوانین میں تبدیلی کے وقت پی ایم ڈی سی کا سربراہ کون تھا؟ ،پی ایم ڈی سی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سال 2012ء میں سربراہ ڈاکٹر عاصم حسین تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیکل شعبے کیساتھ یہ کچھ ہو رہا تھا تو ڈاکٹرز کہاں تھے؟ ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر مسیحا ہوتا ہے،میڈیکل کالجز کا قیام ہی غلط ہوگا تو ماہر ڈاکٹر کہاں سے آئیں گے، چاہتے ہیں ایسا حل نکلے جو شعبہ صحت کے لیے بہتر ہو،باہر کی یونیورسٹیز ہمیں تسلیم ہی نہیں کرتیں کیو نکہ یہاں پیسے دو اور ڈگری لے لو کا نظام ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ خوف،مصلحت اور مفاد جج کے لیے زہر قاتل ہے، ایمانداری کے فیصلے پر عملدرآمد لوگ کراتے ہیں، پاکستان کے عوام سمجھدار ہیں،وکیل فیس لیں لیکن عدالت میں بات قانون کی ہوگی،دل چاہتا ہے کہ نجی میڈیکل کالجز کے داخلے کالعدم کردوں،ہر میڈیکل کالج مرضی سے داخلے دے رہا ہے۔اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ نجی میڈیکل کالجز کو ریگولیٹ کرنے کا قانون نہیں ہے۔