انسداد دہشت گردی یا آبیاری

200

مظفر اعجاز
پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے قوانین موجود ہیں۔ اس کے علاوہ نیکٹا، سی ٹی ڈی اور نہ جانے کون کون سے ادارے وجود میں آچکے ہیں، ہر مہینے دو مہینے میں حکومت کا کوئی نہ کوئی ادارہ دہشت گردوں کی کمر توڑنے کا دعویٰ کررہا ہوتا ہے اور پھر اس کے بعد ٹوٹی ہوئی کمر والے دہشت گرد ایک اور واردات کردیتے ہیں۔ الزامات در الزامات کا سلسلہ چلتا رہے لیکن اس نتیجے پر پہنچنا مشکل ہوتا ہے کہ خرابی کہاں ہے۔ سیاسی جماعتیں حکومت کو الزام دیتی ہیں کہ وہ نالائق ہے، حکومتیں نامعلوم یا مذہب کو نشانہ بناتی ہیں، فوجی ایجنسیاں جس کو چاہتی ہیں پکڑ لیتی ہیں پھر ثبوت لانا تو کوئی مشکل نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی کوئی مطمئن نہیں۔ عدالتوں نے سب ہی پر سوالات اٹھادیے ہیں۔ ہو کیا رہا ہے کہاں خرابی ہے ذرا اس کا جائزہ لیں کچھ چیزوں پر غور کیا جائے۔ گورنر وزیراعلیٰ، صدر، آرمی چیف، وزیراعظم، پولیس چیف، چیف جسٹس اور سب ہی جانتے ہیں لیکن کوئی نوٹس نہیں لیتا۔ یہ مناظر سب کو نظر آتے ہیں۔ سیاہ شیشوں والی گاڑی کو پولیس روک لیتی ہے یا روک سکتی ہے، بغیر نمبر پلیٹ والی گاڑی کو پولیس روک لیتی اور ضبط کرنے کی پابند ہے۔ ممنوع اسلحہ بغیر وردی والے گارڈز غیر قانونی ہیں، لیکن اگر سیاہ شیشوں والی بغیر نمبر پلیٹ ڈبل کیبن گاڑی کے پچھلے حصے میں چارخونخوار گارڈز منہ پر کپڑا لپیٹے بیٹھے ہوں اس کے آگے اور پیچھے پولیس کی موبائلیں ہوں تو آپ کیا کریں گے۔ کیا سمجھیں گے؟؟ کوئی جواب نہیں۔ آئی جی، وزیراعلیٰ، چیف جسٹس کو یہ پتا ہے۔ نہیں پتا تو پتا ہونا چاہیے۔
یہ ایک واقعہ نہیں ہے، صرف کراچی شہر کی سڑکوں پر دن رات خصوصاً رات کے اوقات میں ایسی درجنوں گاڑیاں نظر آتی ہیں۔ عجیب عجیب نمبر پلیٹس اور ان کے آگے پیچھے پولیس۔ ان لوگوں کو پولیس کا تحفظ کس قانون کے تحت دیا جاتا ہے، سیاہ شیشے والی گاڑیاں تو بند ہوجانی چاہئیں لیکن ان کے ساتھ رینجرز بھی ہوتے ہیں۔ ایک دن تو حد ہوگئی ایک ہی نمبر والی دو گاڑیاں آگے پیچھے چل رہی تھیں دونوں کے سیاہ شیشے دونوں کے آگے اور پیچھے پولیس کی موبائلیں تھیں۔ ان گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ مجموعی طور پر 12 گاڑیاں تھیں، 4 پولیس موبائلیں اور 6 پرائیویٹ بے وردی گارڈز اور درمیان میں یہ دو گاڑیاں۔ ان گاڑیوں میں کون ہوتا ہے۔ پولیس کے افسران یا خود کو پولیس افسر کا بیٹا، بھانجا وغیرہ ظاہر کرکے لوگ بدمعاشی کرتے ہیں، مقامی تھانے میں رپورٹ لکھوانے کی کوشش پر تھانہ معذرت کرتا ہے یا ٹال مٹول۔ پیٹی بند بھائی کو تحفظ دینا مقصود ہوتا ہے، ایک صاحب گلستان جوہر میں فلیٹ میں گاڑی لے کر گھس گئے اور ذمے داروں اور گارڈز کو دھمکیاں دینے لگے کہ گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر لے جاؤں گا۔ ایس پی درخشاں کا بھانجا ہوں، چانڈیو ہے میرا نام۔ اب ہم ایس پی درخشاں میں وہاں تعینات کسی چانڈیو کو تلاش کرتے رہے ہمیں تو ایسے ایس پی درخشاں میں نہیں ملے۔ ایک صاحب پڑوس میں مقیم تھے سارا محلہ ایس پی صاحب کہتا تھا، گاڑی کی نمبر پلیٹ پولیس کی نمبر پلیٹ والے رنگ کی تھی سرکاری نہیں تھی، ایک دن مل گئے تو پوچھا آپ کہاں کے ایس پی ہیں، میرا تعلق اخبار سے ہے۔ بڑی معصومیت سے فرمانے لگے۔ بھائی میں تو اے ایس آئی ہوں۔ یہ لوگ محبت میں ایس پی صاحب کہتے ہیں۔ بس بات ختم۔ جو لوگ انہیں ایس پی کہتے ہیں وہ سمجھتے بھی یہی ہیں۔ ان کے لیے قوانین معاف ہوتے ہیں، ایک ایس پی صاحب کے بیٹے نے دو افراد کو کچل دیا کہ ڈاکا مار رہے تھے، ایک مر گیا ایک زخمی ہے۔ تصدیق نہیں ہوسکی کہ کون ہے لیکن یہ تصدیق کون کرے گا کہ واقعی ڈاکو تھے۔ ایس پی کے بیٹے نے کہہ دیا کافی ہے۔ عام شہری کہتا رہے کہ مجھے پولیس والوں نے لوٹ لیا۔ کوئی نہیں سنے گا، جب قوانین کا اس طرح مذاق اڑایا جائے گا تو پھر لوگوں میں کیا خیالات جنم لیں گے۔ کسی کے پاس پیسے ہیں وہ بھی کالے شیشوں والی گاڑی اور چار گارڈ بٹھائے گا، کسی کو گولی مارے گا اور کسی کی گاڑی کو ٹکر۔ اسے پولیس کی دو گاڑیاں بھی تحفظ دیں گی، لیکن عام شہری کو نہیں۔ اس رجحان کی وجہ سے لوگوں میں بے چینی تو پھیلے گی۔ خود پولیس والوں، رینجرز اور چھاپا مارنے والے ایجنسی کے لوگ تھپڑ اور لاتوں سے کام شروع کرتے ہیں۔ اب ردعمل کو دہشت گردی کہیں یا کچھ بھی۔۔۔ ردعمل کچھ نہ کچھ تو ہوگا۔ اس سرکاری سرپرستی کی دہشت گردی کو کون روکے گا۔