۔2018 میں کراچی کی سیاست کہاں ہوگی؟

613

نئے سال 2018 میں ملک کے سب سے بڑے شہر کی سیاسی صورت حال کیا ہوگی یہ اپنی جگہ ایک اہم سوال ہے؟ کراچی سے منتخب اراکین قومی و صوبائی اسمبلی ملک اور صوبے کی صورت حال پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگرچہ طاقت کی سیاست کے تناظر میں ماضی کی ایم کیو ایم اب منقسم ہوچکی ہے، یہ وہ ایم کیو ایم تھی جو سیاسی قوت کے نام پر پورے ملک کی صورت حال طاقت کے ذریعے تبدیل کرانے کی صلاحیت رکھتی تھی جس کے فیصلے لندن اور دبئی میں ہوا کرتے تھے۔ یہ جمہوری پارٹی کے نام پر ’’ڈکٹیٹر شپ‘‘ میں جکڑی ہوئی تھی نتیجے میں اس کے کرتا دھرتا الطاف حسین دونوں ہاتھوں اپنے چاہنے والوں کو لوٹتے رہے اور عملاً سیاسی کردار ادا کرنے والے عام سیاسی کارکنوں کو کچھ بھی نہیں ملا۔
اسی سیاست کا حصہ بننے والے رہنما اور کارکن آج اپنی اور اپنی قوم کی اصلاح کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور ان کے پاس اپنی کامیابی کے لیے اب الطاف کی برائی اور ماضی کی غلطیوں کے اعتراف کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کے متاثرین غلطیوں کا اعتراف کرکے نئی راہ پر چلنے والی ایم کیو ایم اور اس کے دھڑوں کو ایک نئی راہ کے طور پر دیکھنے کے لیے تیار ہوچکے ہیں۔ مگر اس راستے پر دشواریاں پہلے سے کہیں زیادہ ہیں۔ مگر قوم مایوس نہیں ہے اسے توقع ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان، مہاجر قومی موومنٹ اور پاک سر زمین پارٹی معروف اصولوں اور واضح منشور کے تحت کراچی اور سندھ کی سیاست میں جگہ بنا سکے گی۔ دوسری طرف ایم کیو ایم سے علیحدہ ہو کر ایم کیو ایم پاکستان، مہاجر قومی موومنٹ اور پاک سر زمین پارٹی کی شکل میں سرکرداں دھڑوں کی کوشش ہے کہ شہری سیاست کا میدان مار لیں۔ لیکن یہ اب اتنا آسان نظر نہیں آتا۔
ان جماعتوں کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تینوں جماعتیں ہی اپنے اندر بے انتہا کمزوریاں رکھتی ہیں اور تینوں ہی نہ صرف اسٹیبلشمنٹ کے تعاون کی طلب گار ہیں بلکہ ان کی مرضی کے بغیر کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتیں۔ ان جماعتوں میں سب سے کمزور جماعت پاک سر زمین پارٹی نظر آتی ہے جس میں سیاسی قیادت کا فقدان بھی ہے۔ پاک سر زمین پارٹی کی کمزوری یہ بھی ہے کہ اس کے سربراہ مصطفی کمال اپنے آپ کو ’’میں‘‘ تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ دوسروں کو ’’تم‘‘ سے مخاطب کرکے لیڈری کی بنیادی تعریف سے دور بھی کررہے ہیں مگر پھر بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں ہیں کہ ان کی پارٹی 2018 کے انتخابات میں کراچی کی بڑی جماعت بن کر سامنے آئے گی۔ حالاں کہ مصطفی کمال اور ان کی پارٹی کو اب تک لانڈھی، گلستان جوہر، اسکیم 33، اولڈ ایریا، ملیر، گڈاپ، شاہ فیصل کالونی اور قائد آباد تک رسائی حاصل نہیں ہوسکی۔ اسی طرح مہاجر قومی موومنٹ بھی اپنے سابق علاقوں تک محدود نظر آتی ہے۔
الطاف کے سحر میں جکڑی ہوئی ایم کیو ایم اور اس کے نکلے ہوئے حصوں کی کمزوری تو یہ بھی ہے کہ وہ چاہنے کے باوجود اپنے اوپر لگے ’’ٹارگٹ کلنگ اور بھتا خوری‘‘ کے داغ نہیں دھو پارہی۔ حالاں کہ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار اور سینئر رہنما عامر خان مسلسل اس بات کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ وہ اپنے درمیان سے ’’کریمنلز‘‘ کا صفایا کردیں۔ دلچسپ امر یہ ہے جن کریمنلز کو یہ دونوں اپنی سیاست سے دور کرنا چاہتے ہیں انہیں پاک سر زمین پارٹی معافی دلاکر اپنی صفوں میں داخل کررہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ سنگین جرائم میں ملوث افراد کو کیسے ’’پاک‘‘ کیا جائے گا؟ کیا یہ عمل قانون سے مذاق نہیں ہوگا؟
کراچی کی سیاست میں جماعت اسلامی کے مثبت کردار پر کوئی شک نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی سمیت ملک کے تمام ہی شہروں میں معیاری اور صاف ستھری سیاست کے لیے لوگ جماعت اسلامی کی طرف خاموشی سے کھنچیے چلے آرہے ہیں۔ آزاد مبصرین کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کی ماضی کی منفی سیاست سے پریشان افراد کو آنے والے برسوں میں متبادل اور داد رس قیادت کے طور پر صرف جماعت اسلامی ہی نظر آرہی ہے۔ ایسی صورت حال میں اگر ایم کیو ایم پاکستان اپنے بہترین سیاسی مستقبل کے لیے جماعت اسلامی کے ساتھ انتخابی اتحاد کرتی ہے تو اسے ایک بڑا سہارہ مل سکے گا۔ جس کے شہریوں کے مفاد میں مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ اگر یہ اتحاد تشکیل نہیں پایا تب بھی قوی امکان ہے کہ ماضی میں ایم کیو ایم سے وابستہ اور دلچسپی رکھنے والے بیش تر افراد نئے انتخابات میں جماعت اسلامی کے امیدواروں کو ووٹ دیں گے۔
ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ جماعت اسلامی اپنے منشور میں شہری مسائل کے حل کے ساتھ شہری نوجوانوں کی اصلاح اور دلچسپی کے پروگرام کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے۔