ائر مارشل محمد اصغر خان بھی رخصت ہوئے‘ ان کے انتقال پر دل بہت بوجھل ہے‘ جب بھی ان کا نام کسی خبر میں اصغر خان لکھا جاتا تو توجہ دلاتے کہ پورا نام محمد اصغر خان لکھا کریں‘ وہ بہت ہی باکمال انسان تھے پا کستان کا ایک عظیم سپوت ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے کا غم ہے‘ اصغر خان کئی لحاظ سے باکمال انسان تھے‘ ابتدائی تعلیم کے بعد وہ انڈین ائر فورس میں شامل ہوئے‘ پاکستان بنا تو پاکستان کی فضائیہ میں شامل ہوئے‘ صدر اسکندر مرزا اور ایواب خان کے دور میں پاک فضائیہ میں خدمات انجام دیں‘ پی آئی اے کے سربراہ بنے‘ ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں آئے اور سیکولر سیاسی جماعت تشکیل دی ہتھوڑا اور درانتی ان کی جماعت کا انتخابی نشان تھا۔ پہلی بار 1970 میں عام انتخابات میں حصہ لیا‘ تاہم پیپلزپارٹی اور عوامی لیگ کے سیلاب میں ان کی جماعت کے امیدوار تنکوں کی مانند بہہ گئے لیکن اصغر خان کا نام‘ کردار اور سیاسی اٹھان بھٹو سے کہیں زیادہ بلند تھی دونوں ایک دوسرے کے سخت سیاسی حریف رہے‘ جس طرح آج کل عمران خان اوئے توئے کرتے ہیں بالکل اسی طرح بھٹو اپنے سیاسی حریفوں کے لیے کیا کرتے تھے اور انہیں آلو خان کہا کرتے تھے لیکن جواب میں مجال ہے کہ کبھی اصغر خان نے بدزبانی کا مظاہرہ کیا ہو۔ بہادری، دیانت داری اور شرافت کی پہچان تھے ان کا بے داغ کردار سیاسی کارکنوں کے لیے مشعل راہ تھا انہوں نے 97سال کی عمر میں نیک نامی کے سوا کچھ نہیں کمایا۔
اکیس سال کی عمر میں پاک فضائیہ کا حصہ بنے اور 36سال کی عمر میں پاک فضائیہ کے سربراہ بن گئے وہ پاک فضائیہ کے معمار تصور کیے جاتے ہیں ’’آپریشن جبرالٹر‘‘ پر فیلڈ مارشل ایوب خان کی جانب سے مشاورت نہ کرنے پر جنگ ستمبر 1965 سے دو ماہ قبل بطور احتجا ج ریٹائر منٹ لے لی لیکن جب پاک بھارت جنگ شروع ہوگئی تو انہوں نے پاک فضائیہ کو اپنی خدمات پیش کر دیں‘ بہت ہی اعلیٰ پائے کے ہوا باز تھے جب سیاسی جماعت بنائی اور سیاست میں آئے تو ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری کے خلاف تحریک چلائی لیکن جلد ہی دونوں میں ان بن ہوگئی پہلے جسٹس پارٹی بنائی پھر نور الامین مرحوم اور نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم سے مل کر پاکستان ڈیمو کریٹک پارٹی کی بنیاد رکھی لیکن مزاج کے مطابق ماحول نہ دیکھ کر تحریک استقلال کی بنیاد رکھی 1970میں تحریک استقلال بنی اور پھر 2012ء میں تحریک انصاف میں ضم کرکے خود سیاست سے الگ ہوئے ان پر طنز کیا جاتا تھا کہ پارٹی کا نام تو استقلال ہے مگر رویے میں کوئی استقلال نہیں ہے ان کی سیاست میں بھی کہیں استقلال نظر نہ آیا۔
ان کی سیاسی زندگی نشیب و فراز کا شکار رہی لیکن اصول نہیں بدلے‘ کرپشن کے سخت خلاف تھے وہ ساری عمر ان قوتوں کے خلاف لڑتے رہے جو ان کی نظر میں پاکستان کے مسائل کے ذمے دار ہیں‘ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ رہی کہ وہ کبھی اقتدار کے حریص نہیں رہے‘ پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا تو ان کے سیاسی دفتر میں کام کرنے والے کارکن انتخابی شکست پر افسوس کرنے لگے تو ڈانٹ دیا اور کہا کہ کیا وہ میرے ساتھ اس لیے چلے تھے کہ ہم جیت جائیں گے جب بھی ان سے اس حوالے سے گفتگو ہوتی تو کہتے کہ کیا آپ حصول اقتدار کو کامیاب سیاسی زندگی تصور کرتے ہیں؟ میں ایک کامیاب سیاست دان ہوں، میں نے پوری زندگی اصولوں پر سیاست کی ہے کسی آمر کے سامنے جھکا ہوں اور نہ ہی اپنی سیاست کا سودا کیا ہے‘‘۔ ان کی سیاسی زندگی اور سیاسی جماعت کی ایک خوبی یہ بھی رہی اسے خوبی کہہ لیں یا اتفاق‘ وہ سوائے ایک بار‘ کبھی اپنی جماعت کے انتخابی نشان پر انتخابات پر حصہ نہیں لے سکے اتحادوں کی سیاست میں رہے اور اتحادوں کے انتخابی نشان کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیتے رہے یہی وجہ ہے کہ کوئی آج ان کی سیاسی جماعت کے انتخابی نشان سے واقف نہیں‘ نواز شریف‘ اعتزاز احسن‘ ظفر علی شاہ‘ خورشید محمود قصوری‘ جاوید ہاشمی، اور شیخ رشید احمد جیسے رہنماء ان کی جماعت میں رہے، ائر مارشل محمد اصغر خان کوچہ سیاست کا نیک نام تھا مرحوم عمر بھر کرپشن کے خلاف لڑتے رہے۔ آئی جے آئی کی تشکیل پر خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے سیاسی اتحاد تشکیل دینے اور انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کے لیے فنڈز کی تقسیم کا کیس سپریم کورٹ میں لڑتے ہوئے ان کے جوتے گھس گئے لیکن انہیں اپنی زندگی میں انصاف نہ ملا۔ وہ بہادر سیاست دان تو تھے ہی لیکن ان کے غیر لچک دار طرز عمل کی وجہ سے انہیں سیاسی زندگی میں بڑے نقصانات اٹھانا پڑے یہی وجہ تھی کہ جو سیاست دان ان کے پاس اقتدار کے لیے گئے وہ ایک ایک کرکے ان کی جماعت سے الگ ہوتے چلے گئے۔ شیخ رشید احمد تو ائر مارشل محمد اصغر خان کی خوشنودی کے لیے ان کی کتاب سیاسی کارکنوں میں تقسیم کیا کرتے تھے۔
ان کی سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان جیسے بہادر اور دیانت دار سیاست دان کم ہی دیکھے ہیں انہوں نے پاکستان قومی اتحاد کی تحریک میں لوگوں کے دلوں سے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا خوف نکالنے کے لیے کوہالہ کے پل پر جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے انہیں ’’کوہالہ کے پل پر لٹکانے‘‘ کا اعلان کیا تو سال ہا سال سیاسی کارکنوں کی زبان پر رہا انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کیا پاکستان قومی اتحاد کے رہنماؤں میں وہ ’’ہارڈ لائنر‘‘ تصور کیے جاتے تھے انہیں پیر صاحب پگارا اور سردار شیر باز مزاری کی حمایت حاصل تھی انہوں نے مسلح افواج کے سربراہوں کے نام ایک خط لکھا جس میں ان سے کہا کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی غیر قانونی حکومت کا حکم ماننے سے انکار کردیں۔ 4جولائی 1977ء کو جب پی این اے کی مذاکراتی ٹیم سردار آزاد خان کی رہائش گاہ ’’علیوٹ ہاؤس‘‘ پہنچی تو وہاں موجود ائر مارشل محمد اصغر خان نے ذوالفقار علی بھٹو سے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا اور اگلے روز جنرل ضیا الحق نے ملک میں مارشل لا لگا دیا یہی وجہ ہے سیاسی حلقوں میں ایئر مارشل محمد اصغر خان کو مارشل لا لگوانے کا ذمے دار ٹھیرایا جاتا ہے۔
ائر مارشل محمد اصغر خان کی اکتوبر 1979ء کے اوائل میں رات کے کھانے پر ملاقات ہوئی تو جنرل ضیا الحق نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ 90دن میں ہر قیمت پر انتخابات کرائیں گے لیکن انہوں نے کمٹمنٹ پوری نہ کی بلکہ سیاسی سرگرمیوں پر پابندی اور پریس پر سنسر شپ لگا دی۔ اکتوبر 1979ء میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف تحریک میں حصہ لینے سے روکنے کے لیے ائر مارشل محمد اصغر خان کو 5سال تک نظر بند کیے رکھا جس پر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انہیں ’’ضمیر کا قیدی‘‘ قرار دیا محمد اصغر خان ایک صاحب علم سیاست دان تھے جن کا بیش تر وقت قلم و کتاب کے ساتھ گزرتا تھا انہوں نے اردو زبان میں چارکتب چہرے نہیں نظام بدلو، صدائے ہوش، اسلام جمہوریت اور پاکستان اور یہ باتیں حاکم لوگوں کی تحریر کیں اسی طرح انہوں نے انگریزی زبان میں پانچ کتب تحریر کی ہیں ان کا وسیع مطالعہ تھا، وہ ملکی و غیر ملکی صورت حال پر گہری نظر رکھتے تھے۔ محمد اصغر خان کو ’’ہلال پاکستان اور ہلال قائد اعظم کے اعزازات تو دیے گئے لیکن انہوں نے حکومت کے غیر جمہوری طرز عمل کے خلاف اپنے اعزازات واپس کردیے انہوں نے 1985ء میں بحالی جمہوریت کی تحر یک ایم آرڈی میں بھر پور حصہ لیا وہ عمر بھر آمریت کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے جدو جہد کرتے رہے لیکن عمر اصغرخان کو جنرل پرویز مشرف کے حوالے کر کے خود پر تنقید کا جواز فراہم کر دیا عمر کے آخری حصے میں ان کا تحریک انصاف کی طرف جھکاؤ ہوا اپنی جماعت تحریک انصاف میں ضم کر کے سیاست سے ریٹائر منٹ لے لی اور گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کرلی اور سیاست سے الگ ہوکر اسی خاموشی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگئے۔