اصغر خان مرحوم۔ چند یادیں، چند باتیں

266

زِندگی کی سنچری پوری کرنے میں ابھی ایک دو سال باقی تھے کہ ائر مارشل (ر) اصغر خان اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ان کے انتقال پر شاعر کا یہ مصرع بھی ذہن میں آرہا ہے۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔ ان کے مردِ آزاد ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی سے ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستانی سیاست میں ایک مردِ آزاد کی حیثیت سے اپنا کردار اُجاگر کیا۔ اصغر خان اگرچہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ سے پہلے پاک فضائیہ کی سربراہی کے منصب سے سبکدوش ہوگئے تھے لیکن ان کی تربیت یافتہ فضائیہ نے جنگ میں محیر العقول کارنامے انجام دیے اور جنگ کے دوران ان کا نام گونجتا رہا۔ جنگ ختم ہوئی اور تاشقند میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ نہ کرنے کا ایک لایعنی معاہدہ طے پایا تو پاکستان میں اس پر گرما گرم سیاست شروع ہوگئی۔ ذوالفقار علی بھٹو، ایوب حکومت سے نکالے جانے کے بعد عوامی سیاست میں آگئے اور انہوں نے پیپلز پارٹی قائم کرنے کا اعلان کردیا۔ اصغر خان اگرچہ بھٹو سے پہلے پاکستان کی سیاست میں دلچسپی لے رہے تھے لیکن ابھی انہوں نے اپنی الگ سیاسی شناخت قائم نہیں کی تھی۔ راوی کا بیان ہے کہ جب بھٹو نے پیپلز پارٹی قائم کی تو اصغر خان کو پیغام بھیجا کہ آؤ ہم دونوں مل کر سیاست کریں اس طرح ہم عوام کو بیوقوف بنا کر بیس سال تک حکومت کرسکتے ہیں۔ یہ پیغام اسی طرح اُس زمانے کے اخبارات میں رپورٹ ہوا تھا۔ راوی کہتا ہے کہ اصغر خان نے یہ کہہ کر اس پیغام کو مسترد کردیا کہ وہ عوام کو بیوقوف بنا کر سیاست نہیں کرنا چاہتے۔ بعد میں انہوں نے پیپلز پاٹی کے مقابلے میں اپنی جماعت تحریک استقلال قائم کرلی۔ ہم اُس زمانے میں ہفت روزہ ’’ایشیا‘‘ لاہور میں بطور نائب مدیر کام کررہے تھے۔ ملک نصر اللہ خان عزیز اس کے مدیر اعلیٰ اور ممتاز افسانہ نگار جیلانی بی اے اس کے مدیر تھے۔ جریدے کو جماعت اسلامی کے ترجمان کی حیثیت حاصل تھی۔ ایک دن ملک صاحب دفتر تشریف لائے تو جیلانی صاحب سے کہنے لگے ’’بھئی آپ لوگ اصغر خان کا انٹرویو کیوں نہیں کرتے۔ یہ سیاست میں ایک نئی اور دبنگ آواز ہے اور اسے اسلامی کیمپ میں لانا ضروری ہے تا کہ یہ کہیں سیکولرسٹوں کے ہتھے نہ چڑھ جائے‘‘۔ جیلانی صاحب نے ہاں میں ہاں ملائی پھر مجھ سے مخاطب ہوئے ’’متین صاحب آپ اصغر خان سے انٹرویو کا بندوبست کریں‘‘ ہم نے عرض کیا کہ سنا ہے اصغر خان صاحب ایبٹ آباد میں رہتے ہیں ان تک رسائی کیسے ممکن ہوگی۔ ملک صاحب بولے ’’کوئی مشکل نہیں، میرے دوست نسیم حجازی ایبٹ آباد میں رہتے ہیں ان کے نام رقعہ لکھ دیتا ہوں وہ تمہیں اصغر خان سے ملادیں گے‘‘ لیجیے صاحب انٹرویو طے پاگیا۔ ملک نصر اللہ خان عزیز نے اسی وقت نسیم حجازی صاحب کے نام رقعہ لکھ دیا۔ جیلانی صاحب نے انٹرویو کے لیے سوالات تیار کردیے اور ہم اگلی صبح بس کے ذریعے ایبٹ آباد روانہ ہوگئے۔ ایبٹ آباد آج سے پچاس سال پہلے نہایت صاف ستھرا، خوبصورت، چھوٹا سا شہر تھا جہاں لوگ ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ ہمیں اصغر خان سے زیادہ نسیم حجازی صاحب سے ملنے کا اشتیاق تھا۔ طالب علمی کے دور میں ان کے ناولوں نے ہمیں اپنا گرویدہ بنا رکھا تھا، اب ان سے ملاقات کا موقع مل رہا تھا تو ہمارے ہاتھ پاؤں پھولے جارہے تھے اور چہرے پر بدحواسی طاری تھی۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ نسیم حجازی صاحب مشہور آدمی ہیں کسی سے پوچھو گے ان کا پتا بتادے گا۔ ہم ایبٹ آباد پہنچے تو شام ہوچکی تھی، ہم نے بس سے اُترنے کے بعد ایک چائے خانے میں چائے پی اور چائے خانے کے مالک سے نسیم حجازی کا پتا پوچھا تو اس نے ایک لڑکا ساتھ کردیا جس نے ہمیں ان کے گھر تک پہنچادیا۔
لڑکا گھر کے دروازے پر چھوڑ کر واپس چلا گیا۔ ہم چند ثانیے خاموش کھڑے رہے پھر برقی گھنٹی بجائی، کچھ دیر بعد ایک لیم شحیم قد آور آدمی باہر نکلا ہم نے قیافے سے اندازہ لگا لیا کہ یہی نسیم حجازی ہوسکتے ہیں۔ ہم نے سلام کیا، وہ سلام کا جواب دینے کے بجائے ہمیں گھورنے لگے وہ یہ اندازہ لگانے کی کوشش کررہے تھے کہ یہ اجنبی کون ہے۔ ہم نے اُلجھن میں ڈالنا مناسب نہ سمجھا اور جیب سے رقعہ نکال کر انہیں تھماتے ہوئے کہا کہ ’’میں لاہور سے آیا ہوں مجھے ملک نصر اللہ خان عزیز نے بھیجا ہے‘‘ انہوں نے یہ سنتے ہی کہا کہ ’’اچھا آپ میرے مہمان ہیں‘ آئیے‘‘ وہ یہ کہتے ہوئے ہمارا ہاتھ پکڑ کر اندر لے گئے۔ گھر سائیں سائیں کررہا تھا البتہ صحن میں ایک کتا کھڑا تھا جو ہمیں دیکھتے ہی لپکا لیکن حجازی صاحب نے اسے اشارے سے روک دیا۔ ہم لوگ برآمدے میں رکھی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ انہوں نے رقعہ کھول کر پڑھا پھر بولے ’’کل صبح اصغر خان صاحب سے آپ کی ملاقات کرادوں گا آج رات آپ میرے مہمان ہیں‘‘ دسمبر کا مہینہ سخت سردی کے دن تھے، ایبٹ آباد کی سردی تو یوں بھی نام پوچھ رہی تھی، نسیم حجازی صاحب بہت جلد بے تکلف ہوگئے، انہوں نے بتایا کہ سردیوں میں ان کی فیملی راولپنڈی چلی جاتی ہے لیکن ان سے ایبٹ آباد نہیں چھوٹتا۔ اصغر خان سے ان کا خاص یارانہ ہے، خان صاحب مخلص آدمی ہیں قوم کا درد اپنے دل میں رکھتے ہیں اس لیے وہ انہیں سیاست میں لائے ہیں، خان صاحب کی سیاسی جماعت ’’تحریک استقلال‘‘ کا نام بھی ان کا تجویز کردہ ہے۔
نسیم حجازی صاحب سے دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ طے پایا کہ صبح نو بجے اصغر خان صاحب سے ملنے چلیں گے وہ روزانہ اس وقت ان کا انتظار کرتے ہیں۔ چناں چہ ہم اگلی صبح اپنے میزبان کے ہمراہ اصغر خان کی کوٹھی پر پہنچ گئے۔ خان صاحب کی کوٹھی نسیم حجازی صاحب کے مکان کے برعکس ایک کشادہ علاقے میں واقع تھی۔ دسمبر کی سنہری دھوپ چمک رہی تھی، نسیم حجازی صاحب ہمیں کوٹھی کے بیرونی لان میں بٹھا کر اندر چلے گئے اور یہ کہہ گئے کہ خان صاحب عقبی لان میں بیٹھے ہیں، میں ابھی آپ کو اندر بلاتا ہوں۔ ہمیں باہر بیٹھے بیٹھے ایک گھنٹہ گزر گیا تو پریشانی بڑھی کہ کہیں خان صاحب نے ملاقات سے تو انکار نہیں کردیا۔ اتنے میں اندر سے ایک ملازم آیا تو اس کے ذریعے نسیم حجازی صاحب کو پیغام بھیجا وہ دوڑتے ہوئے باہر آئے اور کہنے لگے ’’میں تو بھول ہی گیا تھا کہ آپ میرے ساتھ آئے ہیں آئیں اندر چلیں ہم راہداری سے گزر کر عقبی لان میں پہنچے تو اصغر خان اخبارات کے مطالعے میں مصروف تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی کھڑے ہوگئے اور گرمجوشی سے مصافحہ کیا۔ پھر نسیم حجازی صاحب کی طرف استفہامیہ نظروں سے دیکھا انہوں نے خان صاحب سے ہمارا تعارف کرایا اور بتایا کہ یہ ہفت روزہ ’’ایشیا‘‘ کے لیے آپ کا انٹرویو کرنا چاہتے ہیں۔ خان صاحب الرٹ ہو کر بیٹھ گئے اور کہا ’’پوچھیے، آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں‘‘ پھر سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
اب پچاس برس گزرنے کے بعد انٹرویو کی تفصیل تو یاد نہیں البتہ ایک دو باتیں اب بھی ذہن میں موجود ہیں۔ خان صاحب سے پوچھا گیا کہ آپ اپنی سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں ملک میں کون سا نظام لانا پسند کریں گے۔ انہوں نے برملا کہا کہ وہ نظام جسے عوام پسند کرتے ہیں اور یہ اسلام کا عادلانہ نظام ہی ہوسکتا ہے جس کے لیے عوام نے قیام پاکستان کے وقت لاکھوں جانوں کی قربانی دی تھی۔ ایک سوال جماعت اسلامی کے حوالے سے بھی تھا، خان صاحب کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی نے فوجی آمریت کے دور میں مثالی جدوجہد کی ہے وہ اس کی قدر کرتے ہیں، وہ عنقریب مولانا مودودی سے ملاقات کرکے ان سے سیاسی رہنمائی لیں گے۔ واضح رہے کہ خان صاحب کی مولانا مودودی سے شراکت داری تھی۔ انٹرویو ختم ہوا تو اصغر خان صاحب نے پرجوش انداز میں ہم سے الوداعی مصافحہ کیا۔ ہم نے نسیم حجازی صاحب سے کہا کہ اُٹھیے آپ کے گھر سے اپنا بیگ لینا ہے۔ وہ اُٹھتے ہوئے بولے ’’میں تو بھول ہی گیا تھا کہ مجھے آپ کے ساتھ واپس گھر جانا ہے‘‘ اس پر خان صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ کا بھولنا بھی کمال ہے، آپ روز وعدہ کرتے ہیں کہ پارٹی کا منشور لکھیں گے لیکن روز بھول جاتے ہیں‘‘ اصغر خان صاحب نے بڑی حوصلہ مندی کے ساتھ بھٹو کی فسطائیت کا مقابلہ کیا۔ بھٹو نے سقوط مشرقی پاکستان کے بعد سول چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے باقی ماندہ پاکستان کا اقتدار سنبھالا تھا، پھر وہ وزیراعظم بنے اور ملک میں جمہوری حکومت قائم ہوئی لیکن اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ بھٹو کا رویہ ہمیشہ پُرتشدد اور جابرانہ رہا۔ انہوں نے اپوزیشن لیڈروں کی تضحیک اور ایزا رسانی میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ وہ اصغر خان کو آلو کہہ کر ان کا تمسخر اُڑاتے تھے لیکن 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کے بعد نو سیاسی جماعتوں پر مشتمل پی این اے (پاکستان قومی اتحاد) کی احتجاجی تحریک اُٹھی تو اس میں شامل اصغر خان بھٹو کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن گئے۔ بھٹو نے اس تحریک کو دبانے اور کچلنے کی پوری کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ اصغر خان نے عسکری قیادت کو خط لکھ کر مشورہ دیا کہ وہ بھٹو حکومت کے غیر آئینی اور غیر قانونی احکامات مانے سے انکار کردے۔ آرمی چیف جنرل ضیا الحق نے سیاسی بحران اور امن وامان کی آڑ لے کر مارشل لا لگایا اور قوم سے خطاب کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ ان کے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہیں اور وہ تین ماہ کے اندر عام انتخابات کراکے اقتدار عوامی نمائندوں کے حوالے کردیں گے۔ تو اصغر خان نے اسے اپنی کامیابی سمجھا، ہمیں ان کی لاہور میں وہ پریس کانفرنس یاد ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ جنرل ضیا الحق کبھی اپنے وعدے سے نہیں پھریں گے اور انہیں اس وعدے پر اتنا ہی یقین ہے جتنا مشرق سے سورج کے نکلنے کا۔ لیکن جنرل ضیا الحق سیاستدانوں کے بھی باپ ثابت ہوئے انہوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے وہ چال چلی کہ سب کو شہ مات ہوگئی۔ انہوں نے سب سے پہلے پی این اے کی سیاسی قوت کو منتشر کیا اور اصغر خان کو اقتدار کی جھلک دکھا کر اس سے الگ کردیا۔ مولانا شاہ احمد نورانی بھی جنرل صاحب کے بھرّے میں آکر پی این اے سے تعلق توڑ بیٹھے جو جماعتیں پی این اے میں رہ گئیں انہیں ایک ایک دو دو وزارتیں دے کر رام کرلیا گیا، اس طرح تین ماہ کے اندر انتخابات کرانے کا وعدہ قصہ پارینہ بن گیا۔
اصغر خان اس کے بعد نہ اُٹھ سکے۔ تحریک استقلال ان کی ذات میں سمٹ کر رہ گئی۔ انہوں نے اپنا سیاسی سفر بے شک جاری رکھا لیکن یہ سفر زندگی کی آخری منزل پر پہنچ کر ختم ہوگیا۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔