شیخ مجیب کی مثال‘مطلب کیا ہے؟

495

نا اہل قرار دیے گئے میاں محمد نواز شریف نے شکوہ کیا ہے کہ ’’انصاف اتنا مہنگا ہے کہ وکیلوں کی فیسیں دے دے کر تھک گیا ہوں‘‘۔ میاں صاحب گزشتہ منگل کو اسلام آباد میں وکلاء،کارکنوں اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے اپنی پریشانیوں کا اظہار کر رہے تھے لیکن وہ یہ بھول گئے کہ وہ اپنے معاملات لے کر خود عدالت گئے تھے ۔ ان کو پیپلز پارٹی سمیت کئی لوگوں نے مشورہ دیا تھا کہ عدالت سے رجوع کرنے کے بجائے معاملے کو اسمبلی میں لے جائیں ۔ لیکن میاں صاحب اونچی ہواؤں میں تھے‘ اس مشورے پر عمل نہیں کیا ورنہ وکیلوں کی فیسیں بچ جاتیں ۔ ان کی پارٹی میں کچھ معقول وکیل بھی ہوں گے ‘ انہیں چاہیے تھا کہ میاں صاحب کا مقدمہ مفت لڑتے ۔ پیپلز پارٹی کے معروف وکیل اعتزاز احسن بے نظیر بھٹو کا مقدمہ مفت لڑتے رہے۔ تاہم جب نواز شریف جیسا ارب اور کھرب پتی وکیلوں کی فیسیں بھر کر عاجز آ گیا ہے تو کبھی یہ سوچا کہ مقدمات میں پھنسے ہوئے عام آدمی پر کیا گزرتی ہو گی ۔ متعدد مقدمات تو ایسے ہیں جن کا کئی عشروں میں فیصلہ نہیں ہوتا اور گھر بار تک بک جاتا ہے ۔ میاں نواز شریف تین بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں لیکن کیا انہوں نے ایسا کوئی قانون بنوایا کہ ایک عام آدمی کو آسانی کے ساتھ انصاف مل سکے۔ عدالتیں تو اپناکام کر رہی ہیں لیکن عوام کی سہولت کے لیے قانون سازی تو عوام کے نمائندوں اور حکومتوں کا کام ہے ۔ اب میاں صاحب فرماتے ہیں کہ انصاف اتنا مہنگا ہونے کے بارے میں پہلے پتاہوتا تو ضرور کچھ کرتا ۔ تین بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے والے شخص کی ایسی بے خبری! ویسے عدالتوں اور میاں صاحب کے تعلقات کی تاریخ ایسی خوش گوار بھی نہیں ہے ۔ میاں صاحب ایک بار عدالت عظمیٰ پر حملہ کروا چکے ہیں ۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں تو اس وقت کے وزیر اعظم کے خلاف خود کالا کوٹ پہن کر عدالت پہنچ گئے تھے ۔ معلوم نہیں اس کی فیس بھی وصول کی یا نہیں ۔ میاں نواز شریف نے اس موقع پر بھی عادتاً اپنے حریف عمران خان اور ججوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ کہتے ہیں’’ اتنے زخم نہ دو کہ جذبات پر قابو نہ رکھ سکوں‘‘۔ انہوں نے مثال دی کہ ’’محب وطن‘‘ شیخ مجیب کو باغی بنا دیا ۔ میاں صاحب نے شاید شیخ مجیب کی تاریخ نہیں پڑھی جس نے بھارت کے ہاتھوں میں کھیل کر پاکستان کو دو لخت کروا دیا اور ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کروایا ۔ شیخ مجیب کی مثال دینے کا کیا یہ مطلب نہیں کہ میاں نواز شریف بھی اسی کی طرح بغاوت کرنے جا رہے ہیں ۔ لیکن کیا وہ بھی موجودہ پاکستان کی تقسیم پر کمر بستہ ہیں ۔ لگتا ہے کہ میاں صاحب بولتے ہوئے اپنے ذہن کو تکلیف نہیں دیتے بس زبان چلاتے ہیں۔ انہوں نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ نئے زخم دیے گئے تو وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں گے ۔ نہایت احترام کے ساتھ ، میاں صاحب یہ تو بتائیں کہ بے قابو ہو کر وہ کیا کر گزریں گے ۔ ویسے تو جولائی 2017ء کے بعد سے ان کے جذبات قابو میں کہاں ہیں ۔ ججوں پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسپتالوں میں ضرور جائیں لیکن یہ بھی دیکھیں کہ عدالتوں میں کیا ہو رہا ہے ۔ عدالتوں میں اصلاحات کا عمل تو جاری ہے اور چیف جسٹس گزشتہ دنوں اس کا اعلان بھی کر چکے ہیں لیکن اسپتالوں اور اسکولوں کی ابتر صورتحال کو ٹھیک کرنا تو حکومتوں کا کام ہے ۔میاں صاحب بتا دیں کہ اس کے لیے انہوں نے کیا کچھ کیاہے ۔ کہتے ہیں کہ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ پر عمل ہوتا تو آج ملک کی صورتحال مختلف ہوتی ۔ میاں صاحب ، آپ کو کس نے روکا تھا ۔ عمل کرنے کے لیے ۔ اتنا ہی کر دیتے کہ اس رپورٹ کو عام کر دیتے ۔ لیکن یہاں تو سانحہ ماڈل ٹاؤن پر جسٹس نجفی رپورٹ رکوانے کی بھر پور کوشش کی گئی اور اب بھی اس کی مصدقہ تفصیلات سامنے نہیں آئیں ۔ اس وقت عدالتیں وہ کام کر رہی ہیں جو حکومتوں کے کرنے کا تھا ۔ میاں نواز شریف چند مہینے انتظار کر لیں ، حکومت تو اس وقت بھی ان کی ہے اور وزیر اعظم ان کے تابع ہیں ۔ عام انتخابات میں ممکن ہے کہ اقتدار کا ہما پھر ان کے سر پر جا بیٹھے ۔ اس عرصے میں وہ اگر عدلیہ پر ضربیں لگانے سے گریز کریں تو اس میں انہی کا فائدہ ہے ۔