جدید طبی تحقیق

560

یادداشت کھو دینے والے افراد کے ساتھ گھلنے ملنے سے ان کی بیماری کم کی جا سکتی ہے

ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ یادداشت کھو دینے والے افراد کے رشتے داروں اور دوستوں کو ان کے ساتھ وقت گزارنا چاہیے جس سے وہ خود کو تنہا محسوس نہ کریں تو اس بیماری کی شدت کو روکا جاسکتا ہے۔یاداشت کی کمی یا ڈمینشیا کے ایک عالمی ادارے کی جانب سے کیے گئے سروے کے مطابق 42 فیصد افراد کا یہ خیال ہے کہ ڈمینشیا کے شکار افراد کے ساتھ کسی قسم کا رابطہ رکھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن ادارے کا کہنا ہے کہ لوگوں کی یہ رائے غلط ہے بلکہ ایسے افراد کے رشتے داروں اور دوستوں کے ان سے ملنے سے ان میں خوشی، سکون اور تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے اور وہ یاداشت کی انتہائی کمی سے بھی بچ جاتے ہیں بلکہ اس بیماری کے بڑھنے کا عمل رک جاتا ہے۔ایلزہائمرز سوسائٹی کے مطابق ڈمینشیا کا شکار افراد اب بھی ’جذباتی یادداشت‘ محسوس کر سکتے ہیں یعنی جب لوگ ان سے نہیں ملتے تو ڈمینشیا کا شکار افراد ایک لمبے عرصے یا تجربے کے طور پر اس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ انہیں بھلا دیا گیا ہے۔ اس لیے سروے میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ لوگ اس بیماری کے شکار دوستوں اور رشتے داروں کے پاس باقاعدگی سے جایا کریں تاکہ وہ انہیں سرگرمیوں میں حصہ لینے میں مدد کریں جس سے وہ بھی لطف اندوز ہو سکیں۔

بچوں کے ساتھ کہانیاں اور کتابیں پڑھناان کی ذہنی نشوونما کو تیز کرتا ہے

امریکا میں سنسناٹی چلڈرن ہاسپٹل میڈیکل سینٹر کے ماہرین نے اس ضمن میں ایک سروے کیا ہے اور فنکشنل میگنیٹک ریزوننس امیجنگ (ایف ایم آر آئی) کے ذریعے کتاب پڑھنے کے دوران 4 سالہ بچوں کا جائزہ لیا ہے۔ جب بچے کہانی سن رہے تھے تو اس دوران اُن کے دماغ میں غیرمعمولی مثبت سرگرمی دیکھی گئی۔ماہرین نے والدین اور بچوں کے درمیان مکالماتی پڑھائی کرائی تھی جس کا مطلب ہے کہ والدین پڑھتے تھے اور بچے انہیں سنتے تھے اور والدین اس کہانی سے متعلق سوالات پوچھتے رہے۔ اس مطالعے کے سربراہ ڈاکٹر جان ہٹن ہیں جو کہتے ہیں کہ والدین بچوں کے ساتھ کہانیاں اور کتابیں کچھ اس طرح پڑھیں کہ بچوں کو الفاظ بھی پڑھائیں، انہیں صفحہ پلٹنے دیں اور ان سے سوال و جواب بھی کریں۔اس طرح دماغ کو ایک طرح کی غذا ملتی ہے اور سپر چارج ہوجاتا ہے۔ کتابیں پڑھ کر سنانے کے عمل سے بچوں میں خواندگی پروان چڑھتی ہے اور ان کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتا ہے۔

بچپن میں کھیل کود کرنے والے بڑھاپے میں صحت مند زندگی گزارتے ہیں

بچپن میں وہ کہاوت تو سبھی نے سنی ہوگی کہ ’پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب، کھیلو گے کودو گے بنو گے خراب‘ مگر ماہرین کا تو کچھ اور ہی کہنا ہے۔جی ہاں امریکا اور سوئٹزرلینڈکے طبی ماہرین نے ایک مشترکہ تحقیق میں یہ انکشاف کیا ہے کہ جو لوگ اپنے زمانہ طالب علمی کے دوران کھیل کود پر توجہ دیتے ہیں وہ بڑھاپے میں صحت مند زندگی گزارتے ہیں۔امریکا کی کارنیل یونیورسٹی اور سوئٹزرلینڈ کے فیڈرل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جو لوگ اپنے اسکول کے زمانے میں مختلف کھیلوں میں سرگرم رہتے ہیں وہ 70 سال کی عمر میں ڈاکٹروں کے پاس جانے سے کافی حد تک محفوظ رہتے ہیں۔ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ نوعمری میں ورزش کی عادت بڑھاپے میں لوگوں کو زیادہ متحرک بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔محققین کا کہنا ہے کہ آج کے بچوں میں ورزش کا شوق پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ موٹاپے اور دیگر جسمانی مسائل سے بچ سکیں۔