آئی جی سندھ کی تبدیلی

381

آخر کار حکومت سندھ اپنی طویل مہم میں کامیاب ہوگئی اور اے ڈی خواجہ کی جگہ اپنے مطلب کے آئی جی پولیس عبدالمجید دستی کو لے آئی۔ تبدیلی صرف یہیں تک نہیں رہے گی بلکہ پولیس کے کئی افسران ادھر ادھر کیے جائیں گے تاکہ ہر جگہ اپنی پسند کا افسر تعینات کیا جاسکے۔ یہ سال عام انتخابات کا سال ہے اور انتخابات میں پولیس اور افسران بہت کام آتے ہیں، ان کی مدد سے انتخابات جیتنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ اللہ ڈنو یا اے ڈی خواجہ سندھ حکومت کی من مانی میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے چنانچہ گزشتہ سال ان کو ہٹانے اور پولیس میں بے اثر بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ لیکن وہ عدالت عالیہ سندھ کے حکم پر اپنی جگہ جمے رہے۔ وزیر داخلہ سندھ ان کو بار بار یاد دلاتے رہے کہ آئی جی ان کے تابع ہیں۔ آخر کار یہ کشمکش ختم ہوئی۔ انسپکٹر جنرل پولیس وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے چنانچہ گزشتہ بدھ کو وفاقی کابینہ نے ہتھیار ڈالتے ہوئے سندھ کابینہ کا مطالبہ تسلیم کرلیا اور اے ڈی خواجہ کو ہٹا دیا گیا۔ اس تبدیلی کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن اس سے سندھ پولیس کے ان افسران میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے جو اے ڈی خواجہ کے قریب سمجھے جاتے ہیں ۔ نئے آئی جی عبدالمجید دستی گریڈ 22 میں تھے لیکن انہیں کوئی منصب نہیں دیا گیا تھا کیوں کہ وہ گریڈ 21 کے اے ڈی خواجہ کے ماتحت کام کرنا کسر شان سمجھتے تھے۔ اے ڈی خواجہ کو شکایت تھی کہ سندھ حکومت ناروا سلوک کرتی ہے اور ان کو کام سے روکا جاتا ہے۔ اس کھینچا تانی کا منفی اثر سندھ پولیس پر پڑ رہا تھا۔ اے ڈی خواجہ اور سندھ حکومت کے بڑوں کے درمیان پولیس افسران کے تقرر اور تبادلے پر اختلافات چل ہی رہے تھے۔ لیکن ایک بڑا واقعہ ہوگیا کہ اے ڈی خواجہ نے آصف علی زرداری کے بہت قریب ایک تاجر پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرڈالی۔ صوبہ سندھ میں یہ ایک بڑا جرم ہے۔