قصور کی زینب کا کیا قصور تھا ؟

634

ملک کا مسئلہ عمران خان کی شادی نہیں ہے جس پر بحث کی جائے اور خون جلایا جائے۔ ملک کا اہم مسئلہ قانون کی حکمرانی اور معاشرے کے مجرموں کو بلا رعایت اور قانون کے مطابق کیفر کردار تک پہنچانا ہے۔ جب کراچی میں محض پانچ سال قبل سرعام معصوم نوجوان سرفراز کو فائرنگ کرکے قتل کرنے والے سرکاری اہل کار سزا پانے کے باوجود صدر مملکت کو حاصل اختیارات کے تحت سزا سے بچ نکلیں تو پنجاب کے شہر قصور میں 8 سالہ زینب کے ساتھ پیش آنے والے واقعات پیش آتے رہیں گے۔
قانون کا مجرموں کو فائدہ دینے کا استعمال جس طرح وطن عزیز میں ہوتا ہے اس کی مثال کسی اور ملک میں ملنا ناممکن ہے۔ یہاں تاخیر سے انصاف ملنا تو عام بات ہے مگر مجرموں کو ’’قانونی رعایت‘‘ چھوٹ دینا بھی اب روایت بنتا جارہا ہے۔ ابھی چند روز قبل بڑے سرمایہ دار کے بیٹے شاہ رخ جتوئی کی سزائے موت کالعدم قرار دی گئی تھی۔ بعد میں صدر مملکت قتل میں ملوث رینجرز اہل کاروں پر ’’ممنون‘‘ ہوگئے اور نظام کو معاتب بنا دیا۔
8 سالہ زینب کے ساتھ ظالموں نے جو ظلم کیا اس کا حوصلہ مجرموں کو قانونی رعایت ملنے کا باعث ہی تو ہے۔ مگر اب کیا ہوگا بیانات اور مجرموں کو جلد سے جلد کیفر کردار تک پہنچانے کے دعوے۔۔۔ اور پھر وہی کچھ ہوگا جس کا رونا رویا جارہا ہے۔
عورتوں اور بچوں کے حقوق کے لیے سیکڑوں این جی اووز فعال ہیں اور اتنی ہی ’’انسانی حقوق‘‘ کے نام پر سرگرم ہیں جو مجرموں کی موت کی سزا کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔ اب اسے منافقانہ رویہ نہ کہا جائے تو پھر کیا کہا جائے؟
لاہور کے ضلع قصور میں زینب کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ انوکھا نہیں ہے یہاں تو بچوں کے ساتھ زیادتیوں کی ایک سیریز چل رہی ہے دو سال قبل اسی علاقے میں تین سو سے زائد بچوں کے ساتھ جو کچھ کیا گیا اور پھر ان کی ویڈیو اور تصاویر تک بنائی گئیں وہ نہ بھولنے والا واقعہ ہے۔ این جی او ساحل کی رپورٹ کے مطابق قصور میں گزشتہ سات ماہ کے دوران بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا مگر پنجاب کے حکمران خادم اعلیٰ سمیت اپنے معاملات میں مست ہیں۔ وہ مجرموں کا تعاقب کرنے کے بجائے ان جرائم پیشہ عناصر کو مبینہ طور پر بحیثیت اپنے ووٹرز تحفظ فراہم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تین سو بچوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے اہم ملزمان اب بھی آزاد ہیں اور جو قید ہیں وہ کسی بھی وقت کمزور مقدمات کی وجہ سے آزاد ہوجائیں گے۔ کاش شہباز شریف ان بچوں کو اپنے بیٹے حمزہ شہباز کی طرح سمجھ کر ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کریں۔
زینب زیادتی کے بعد سفر آخرت پر روانہ ہوگئی مگر اس کی چیخیں شاید حکمرانوں کا مرنے تک تعاقب کریں گی اور انصاف کی متلاشی رہیں گی۔ اس انصاف کی جس کی تلاش نہیں جو ان کے بھائی نواز شریف کو بلکہ اس انصاف کی جو صوبے کے مظلوم عوام کو ہے۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ عوام مفاد پرست سیاست دانوں کے ذاتی مفادات کے معاملات میں دلچسپی لینے کے بجائے اپنے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کریں۔ ورنہ دوبارہ زینب جیسے دردناک سانحات ہوتے رہیں گے اور ہم ایک دوسرے سے سوال کرتے رہیں گے کہ: ’’زینب کا قصور کیا تھا؟‘‘۔