پردے کو رہنے دو پردہ نہ اٹھاؤ

803
ہماری اجتماعی زندگی پردے پر جتنی ہولناک نظر آتی ہے پردے کے پیچھے اس سے کہیں زیادہ ہولناک ہے۔ اس زندگی کا ایک حوالہ ایم کیو ایم اور اسٹیبلشمنٹ کا تعلق ہے۔ اس تعلق کی اہم ترین بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم کو اسٹیبلشمنٹ نے تخلیق کیا، اسٹیبلشمنٹ نے آگے بڑھایا، لیکن یہ تو اس تسلسل کا اجمال ہے۔ اس اجمال کی تفصیل رونگٹے کھڑے کردینے والی ہے، اس تفصیل کے کچھ گوشے سندھ کے سابق گورنر اور ایم کیو ایم کے سابق رہنما ڈاکٹر عشرت العباد کے اس انٹرویو میں عیاں ہوئے ہیں جو روزنامہ جنگ کراچی میں شائع ہوا ہے۔
عام خیال یہ ہے کہ صوبوں کے گورنر مرکز یا وفاق کے نمائندے ہوتے ہیں، لیکن عشرت العباد نے انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ سندھ کے گورنر کے لیے لندن میں الطاف حسین سے رابطہ کیا گیا اور رابطہ کرنے والے آئی ایس آئی کے سربراہ کے نائب میجر جنرل احتشام ضمیر تھے۔ عشرت العباد سندھ کے گورنر کے عہدے کا حلف اٹھانے کے لیے لندن سے پاکستان پہنچے تو ہوائی اڈے پر احتشام ضمیر نے بہ نفس نفیس ان کا خیر مقدم کیا۔ انہیں اپنے خاص درزی سے شیروانی مہیا کی، رات کے کھانے پر انہیں ہوٹل لے کر گئے۔ عشرت العباد کے انٹرویو کے مطابق انہوں نے بہت جلد فوجیوں کا اتنا اعتماد حاصل کرلیا کہ انہیں ان اجلاسوں میں بھی شریک کیا جانے لگا جن میں صرف فوجی موجود ہوتے تھے۔
ہم گزشتہ 20 برس میں یہ لکھ لکھ کر تھک گئے کہ ایم کیو ایم اور فوج کے تعلق میں دراڑ پیدا کرنے والا واقعہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں اور کارکنوں کے ہاتھوں میجر کلیم کا اغوا اور ان پر تشدد تھا۔ لیکن یہ تجزیہ اب تک محض ایک قیاس آرائی تھا۔ تاہم عشرت العباد کے زیر بحث انٹرویو نے اس قیاس آرائی پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ ڈاکٹر عشرت العباد کے بقول ان کی جنرل پرویز اور ان کے فوجی رفقا سے پہلی ملاقات ہوئی تو جنرل پرویز نے ان سے پوچھا کہ میجر کلیم کے معاملے سے ان کا کیا تعلق تھا۔ عشرت العباد کے بقول انہوں نے جنرل پرویز کو بتایا کہ میرا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں کہنے کی ایک بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم میجر کلیم سے قبل ہزاروں لوگوں کو اغوا کرکے تشدد کا نشانہ بنا چکی تھی مگر اسٹیبلشمنٹ کے لیے اس کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ البتہ 1991ء میں میجر کلیم اغوا ہو کر ایم کیو ایم کے تشدد کا نشانہ بنے تو 1992ء میں ایم کیو ایم کے خلاف پہلے فوجی آپریشن کی نوبت آئی۔ اس آپریشن کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ نے ایم کیو ایم سے کہا نہ صرف یہ۔ ’’ہماری بلی اور ہمیں ہی میاؤں‘‘۔ بدقسمتی سے میجر کلیم کیس میں میجر کلیم کو بھی انصاف نہ مل سکا کیوں کہ 1998ء کے اوائل میں ’’معزز‘‘ سندھ ہائی کورٹ نے میجر کلیم کیس میں گرفتار ایم کیو ایم کے تمام 18 کارکنوں کو رہا کردیا۔ میجر کلیم نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی مگر سن 2007ء میں سپریم کورٹ نے میجر کلیم اور ان کے وکیل کی عدم موجودگی کو کیس کے سلسلے میں عدم پیروی باور کیا اور یہ سمجھتے ہوئے کہ کیس واپس لے لیا گیا ہے، ایم کیو ایم کے تمام رہنماؤں اور کارکنوں کو بری کردیا۔
عشرت العباد نے انٹرویو میں بتایا ہے کہ وہ جنرل پرویز سے ملاقات کے لیے گئے تو آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احسان، ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ جنرل ندیم تاج اور کئی اعلیٰ فوجی اہلکار وہاں موجود تھے۔ عشرت العباد کے بقول جنرل پرویز مشرف نے ان سے کہا کہ ان کی جماعت بہت مقبول اور متوسط طبقے کی جماعت ہے تو آپ کے لوگ تشدد کی وارداتوں میں کیوں ملوث کرتے ہیں۔ عشرت العباد نے کہا کہ جب کوئی جماعت مقبول ہو جاتی ہے تو ایسا ہوجاتا ہے۔ عشرت العباد کے بقول انہوں نے جنرل پرویز مشرف سے کہا کہ۔
خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آہی جاتی ہے
ڈاکٹر عشرت العباد کے بقول ان کا جواب سن کر جنرل پرویز مشرف سمیت میٹنگ میں موجود تمام لوگ ہنسنے لگے۔ تجزیہ کیا جائے تو عشرت العباد کا مذکورہ بالا جواب سفاکی اور سیاسی فحاشی کی بدترین مثال ہے۔ اس لیے انہوں نے ایم کیو ایم کی مقبولیت کو خدا کا بخشا ہوا حسن اور ایم کیو ایم کے ہولناک تشدد اور دہشت گردی کو ’’نزاکت‘‘ قرار دیا تھا لیکن عجیب بات یہ ہے کہ عشرت العباد کی سفاکی اور سیاسی فحاشی پر جرنیل نہ حیران ہوئے نہ پریشان بلکہ وہ اس سفاکی اور فحاشی پر ہنس پڑے۔ غور کیا جائے تو یہ بجائے خود بدترین سفاکی، شقی القلبی، بدترین بدتہذیبی، بدذوقی اور لفنگے پن کی ہولناک مثال ہے۔ کاش جنرل پرویز، جنرل احسان اور جنرل تاج یا ان کے پیارے بھی ایم کیو ایم کے ’’حسن‘‘ اور حسن سے پیدا ہونے والی ’’نزاکت‘‘ کا شکار ہوئے ہوتے۔ لیکن ایک اور مسئلہ ہمارے سامنے آتا ہے۔ ہمارے جرنیلوں کو ہنسنے ہنسنانے کا بڑا ہی شوق ہے۔ میجر صدیق سالک نے اپنی تصنیف ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھا ہے کہ سقوط ڈھاکا ہوچکا تھا اور جنرل نیازی بھارتی جنرل کے ساتھ ملاقات میں اسے فحش لطیفے سنا کر خود ہنسنے اور بھارتی جنرل کو ہنسانے کی کوشش کررہے تھے۔ جنرل پرویز اور ان کے اعلیٰ فوجی رفقا کے ہنسنے ہنسانے کا قصہ ابھی آپ نے ملاحظہ فرمایا۔ ہمیں یاد آیا کہ حال ہی میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل احسان الحق اور بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے سابق سربراہ اے ایس دولت کے درمیان لندن میں ملاقات ہوئی تو اس ملاقات میں بھی لطائف سنے اور سنائے جارہے تھے۔
’’نیک کام‘‘ ایک ایسے وقت میں ہورہا تھا جب بھارت بچے کھچے پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں ظلم کی انتہا کیے ہوئے ہے، وہ کشمیر میں عام لوگوں ہی کو نہیں عورتوں اور بچوں کو بھی پیلٹ گنوں کے ذریعے نابینا بنارہا ہے، وہ سرحد پر ہمارے درجنوں فوجیوں اور سیکڑوں عام شہریوں کو شہید کرچکا ہے۔ لیکن جنرل احسان اس طرح لطیفہ گوئی میں مصروف تھے جیسے وہ اپنے بچھڑے ہوئے بھائی کے ملنے پر خوش ہوں یا لطیفہ گوئی ان کا پیشہ ہو۔
عشرت العباد نے اپنے انٹرویو میں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ جب جنرل پرویز نے جسٹس افتخار چودھری کو برطرف کیا تو عشرت العباد نے ان سے کہا کہ چودھری افتخار کی برطرفی ٹھیک ہوگی مگر انہیں نظر بند نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ یہ سن کر جنرل پرویز نے کہا کہ میں نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا۔ عشرت العباد کے بقول جنرل پرویز نے ان کے سامنے فون اُٹھایا اور متعلقہ لوگوں کو ہدایت کی کہ چودھری افتخار پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ لیکن عشرت العباد کے مطابق جنرل پرویز کے حکم پر عمل نہ ہوسکا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنرل پرویز خود اسٹیبلشمنٹ کے لیے ’’بوجھ‘‘ بن چکے تھے اور اسٹیبلشمنٹ تقسیم ہوچکی تھی اور اسٹیبلشمنٹ کا زیادہ موثر حلقہ جنرل پرویز سے جان چھڑانے کے لیے کوشاں تھا۔ یعنی جنرل پرویز اقتدار سے الگ ہوئے تو اسٹیبلشمنٹ کے داخلی دباؤ کی وجہ سے۔ یادش بخیر جنرل ایوب بھی اپنے اقتدار کے آخری دور میں خود فوج پر بوجھ بن گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اقتدار خود جنرل یحییٰ کے حوالے کیا۔ یہی مسئلہ جنرل ضیا الحق کو لاحق ہوا۔ وہ امریکا کے لیے درد سر اور خود اسٹیبلشمنٹ کے لیے بوجھ بن گئے تھے۔ اس کے بغیر ان کے محفوظ ترین طیارے میں بم یا دھماکا خیز مواد نہیں رکھا جاسکتا تھا۔ ’’داخلی مسائل‘‘ کے بغیر جنرل ضیا الحق کے حادثے کو ’’دفن‘‘ کرنا بھی ممکن نہ تھا۔ جنرل ضیا اور بریگیڈیئر صدیق سالک کے فرزند یعنی اعجاز الحق اور سرمد سالک ابتدا میں اس حوالے سے کافی چیخے چلائے مگر ان کے پاس موجود ناقابل تردید ’’شہادتوں‘‘ پر کسی نے بھی توجہ نہ دی۔
عشرت العباد نے انٹرویو میں کہا کہ جب پارٹی کے کہنے پر انہوں نے گورنر شپ سے پانچویں بار استعفا دیا تو آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا نے ان سے کہا کہ ان کا استعفا قبول نہیں کیا گیا ہے اور انہیں اپنے عہدے پر دوبارہ کام کرنا شروع کردینا چاہیے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ عشرت العباد دبئی میں مقیم ہوئے تو ان سے اسلام آباد میں تعینات برطانوی سفیر ایڈم تھامس اور کراچی میں برطانیہ کے قونصل جنرل فرانسس نے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ گورنر کی حیثیت سے دوبارہ کام شروع کریں۔ عشرت العباد نے کہا کہ وہ الطاف حسین کی ہدایت کے بغیر پھر سے گورنر کے طور پر کام نہیں کرسکتے۔ عشرت العباد کے بقول وہ 22 دن تک دبئی کے ہوٹل میں مقیم رہے۔ بالآخر انہیں برطانیہ کے ایک سفارت کار کی کال موصول ہوئی۔ سفارت کار نے کہا کہ حکومت برطانیہ نے الطاف حسین کو ہدایت کردی ہے کہ وہ آپ کو بطور گورنر کام کرنے دیں۔ برطانوی سفارت کار نے کہا کہ الطاف حسین خود تمہیں یعنی عشرت العباد کو فون کرکے ایسا کرنے کے لیے کہیں گے۔ کچھ دنوں بعد ایسا ہی ہوا۔ یہاں برطانیہ کے ذکر پر توجہ مرکوز کرنے کی ایک وجہ ہے۔ ہم گزشتہ 20 سال سے محض قیاس کی بنیاد پر یہ عرض کررہے ہیں کہ امریکا باقی پورا پاسکتان خود ’’دیکھ‘‘ رہا ہے البتہ اس نے کراچی کو برطانیہ کے حوالے کیا ہوا ہے۔ عشرت العباد کے انٹرویو سے اس قیاس کی بھی تصدیق ہوگئی۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف امریکا ہی دہشت گرد اور بدمعاش ریاست ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ مغربی دنیا کے جس ملک کے بارے میں نہ جانیں اچھا ہے۔ برطانیہ ہی کو لے لیجیے، وہ دو دہائیوں سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی دہشت گردی کی پشت پناہی کررہا ہے۔ برطانوی حکومت اتنی ’’معصوم‘‘ اور ’’لاعلم‘‘ ہے کہ اسے پتا ہی نہیں کہ الطاف حسین اور ان کے زیر اثر ان کی جماعت کراچی میں کیا کررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ نے آج تک اپنے شہری الطاف حسین پر دہشت گردی کی پشت پناہی یا اس کو فروغ دینے کے حوالے سے کوئی الزام عائد نہیں کیا۔ لیکن اس سے زیادہ المناک بات یہ ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ابھی تک اس سلسلے میں برطانیہ سے احتجاج کا حق بھی ادا نہیں کرسکی۔ الطاف حسین دو دہائیوں سے شہر میں دہشت گردی اور بھتا خوری کررہے تھے تو کوئی خاص بات نہ تھی مگر انہوں نے جرنیلوں کو گالیاں دیں تو ان کی تقریروں پر پابندی لگادی گئی۔ الطاف حسین جرنیلوں کو گالیاں نہ دیتے تو وہ اسی طرح آزاد رہتے جس طرح وہ 20 سال سے کچھ بھی کرنے اور کہنے میں آزاد تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کچھ عرصے پہلے تک جو عشرت العباد الطاف حسین کے پیارے تھے وہی عشرت العباد برطانیہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا کے بھی ’’دلارے‘‘ تھے۔ یہاں تک کہ عشرت العباد آصف علی زرداری کی بھی آنکھ کے تارے تھے۔ چناں چہ عشرت العباد کے بقول آصف علی زرداری نے خصوصی طیارہ بھیج کر انہیں دبئی سے کراچی بلایا۔ اس منظر نامے میں ’’شمع‘‘ ہی نہیں اس کے ’’پروانوں‘‘ کا ’’اجتماع‘‘ بلکہ ان کا ’’اجماع‘‘ بھی اہم ہے۔ عشرت العباد نے انٹرویو میں بتایا کہ انہوں نے 19 جولائی 2011ء کو بطور گورنر کام شروع کیا تو چند دن کے بعد ان کی ملاقات اسلام آبا د میں جنرل کیانی اور جنرل پاشا سے ہوئی۔ عشرت العباد کا انٹرویو کرنے والے کے بقول یہ وہی ملاقات تھی جس میں عشرت العباد نے اپنی وفاداری بدلی اور ’’لندن‘‘ کا ساتھ چھوڑ کر ’’راولپنڈی‘‘ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ عشرت العباد کے بقول انہیں ’’نئے سفر‘‘ میں دشواری ہوئی مگر وہ قومی مفادات کو ترجیح دیں گے۔ یہاں ایک شعر یاد آگیا۔
رات بھر خوب سی پی صبح کو توبہ کرلی
رِند کے رِند رہے ہاتھ سے ’’پنڈی نہ گیا‘‘