امریکا سے تعلقات کی بحالی میں بے چینی

390

امریکا کی طرف سے پاکستان کو کھلی دھمکیوں، الزامات اور امداد بند کرنے کے اعلانات کے باوجود نہ تو امریکی کمبل پاکستان کو چھوڑنے پر تیار ہے اور نہ ہی پاکستان جو کمبل کے دھوکے میں ایک خونخوار ریچھ سے چمٹا ہوا ہے اور چمٹا ہی رہناچاہتاہے۔ نئے سال کے پہلے ہی دن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے خلاف جس بے ہودگی اور ناشائستہ زبان کا استعمال کیا اس کے بعدتو پاکستان کے پاس نادر موقع تھا کہ برسوں کی غلامی کا قلادہ اتار کر پھینک دیا جائے اور ایک آزاد و خود مختار ملک کی طرح قومی غیرت وحمیت کا مظاہرہ کیا جائے۔ فوری طور پر سول اور فوجی قیادت نے گرما گرم بیانات دیے اور کہا گیا کہ امریکا اپنی امداد اپنے پاس رکھے، ہمیں ضرورت نہیں۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف جوش میں آ کر یہ بھی کہہ گئے کہ پاکستان اور امریکا اتحادی نہیں ہیں۔ لیکن خود ان کی وزارت خارجہ نے وضاحت کی ہے کہ وزیر خارجہ محض اپنے غم و غصے کا اظہار کررہے تھے جو انہیں پاکستان پر امریکی الزامات کے خلاف تھا۔ لیکن وزارت خارجہ کا اپنے وزیر کے بیان کی وضاحت سے تو یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ خواجہ آصف کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں اور پاکستان اور امریکا ایک دوسرے کے اتحادی تھے، ہیں اور رہیں گے۔ عجیب بات ہے کہ دفتر خارجہ وزیر خارجہ کے بیان کی تکذیب کررہا ہے۔ اب خواجہ آصف کو چاہیے کہ اپنے دفتر سے وضاحت طلب کریں۔ یقیناًخواجہ آصف نے جوش میں آ کر غیرت کا مظاہرہ کردیا تھا مگر دفتر خارجہ کو اس کی تردید اور وضاحت کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس پر خاموش بھی رہا جاسکتا تھا لیکن کیا وزارت خارجہ کو یہ فکر لاحق ہوگئی کہ امریکا کو غیر اتحادی قرار دینے سے کہیں وہ مزید برہم نہ ہو جائے۔ لیکن امریکا جو کچھ کرچکا ہے اور کررہاہے اس سے زیادہ برا اور کیا ہوگا۔ پاکستانی قوم سمجھ رہی تھی کہ امریکی امداد بند ہونے سے اب پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرے گا اور وہ خود کفالت جس کا ہر حکمران خواب دکھاتا رہا ہے، شاید اب حاصل ہو جائے ۔ لیکن امریکا کے غلاموں کو آزادی گوارہ نہیں ۔ دوسری طرف امریکا کو بھی احساس ہے کہ پاکستانی تعاون کے بغیر وہ اس خطے میں کوئی اہم واردات کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ آثار بتا رہے ہیں کہ پورے ایشیا میں کوئی نیا خونیں کھیل تیار ہے۔ افغانستان، عراق، لیبیا اور شام میں بربادی اور مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے بعد اب ایران میں افراتفری پھیلا دی گئی ہے اور عوام کو اکسا کر ہنگامہ آرائی پر آمادہ کیا گیا ہے۔ ایران وہ ملک ہے جو کئی عشروں سے امریکی پابندیوں کا ڈٹ کر مقابلہ اور قومی وقار کا تحفظ کررہا ہے۔ حکومت کے خلاف عوام کا احتجاج ایران کا اندرونی معاملہ ہے لیکن نہ صرف امریکا بلکہ کئی یورپی ممالک کی طرف سے ایرانی عوام کو مشتعل کرنے کی کوشش سے کھیل سمجھ میں آرہا ہے کہ اب ایران مغربی استعمار کا نشانہ ہے۔ اس کے بعد ممکن ہے کہ کسی اور عرب ملک کی باری آجائے جسے سیکولر بنا کر تباہی کا راستہ دکھایا جارہا ہے۔ سعودی عرب میں علما ء کرام کی گرفت کمزور کی جارہی ہے۔ خطے میں سامراج کے نئے کھیل میں پاکستان کا کردار کیا ہوگا، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان گو کہ سیکولر ملک نہیں ہے لیکن کئی مذہب بے زار عناصر اسے سیکولر بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کے سرخیل ایوان بالا کے صدر نشین رضاربانی ہیں۔ پاکستان کے کچھ برقی ذرائع ابلاغ بھی اس کھیل میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ بہرحال، یہ ایک الگ موضوع ہے۔ اس وقت تو پاکستان کے حکمران امریکا سے مذاکرات اور تعلقات کی بحالی میں بے تاب ہوئے جارہے ہیں۔ وزیر دفاع نے فرمایا ہے کہ واشنگٹن دھمکیاں چھوڑ کر از سر نو اسٹریٹجک ڈائیلاگ کرے۔ دفتر خارجہ کہتا ہے کہ سیکورٹی تعاون پر ٹرمپ انتظامیہ سے رابطہ ہے اور ٹرمپ نے کہا تھا کہ پاکستان دھوکے باز ہے، 33ارب ڈالر کی امداد لے کر کھا گیا اور ٹکے کا کام نہیں کیا۔ اب اسی امریکا کی خوشامد ہو رہی ہے۔ ایک بار ہمت کر کے امریکا کو انکار تو کیا ہوتا، افغانستان کے لیے اس کی رسد کے راستے تو بند کر کے دیکھے ہوتے۔ لیکن حکمرانوں پر خوف طاری ہے کہ امریکی امداد بند ہوگئی تو حکمرانوں کے اللے تللے ختم ہو جائیں گے۔ دوسرا خوف یہ ہے کہ کہیں امریکا افغانستان کی طرح پاکستان پر بھی فضائی حملے نہ کردے۔ امریکا پاکستان پر حملے تو کرے گا اور کرہی رہا ہے لیکن وہ کھل کر سامنے نہیں آئے گا۔ اور ایسے حملے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں ۔ پاکستان کی بے تابی کے ساتھ امریکا نے بھی مصالحت کے پیغامات بھیجنے شروع کردیے ہیں ۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکا میں مذاکرات جاری ہیں ۔ مختلف سطحوں پر باہمی دلچسپی کے معاملات پر پیغام، سلام کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکا کی طرف سے پاکستان کی امداد معطل کرنے کے ٹرمپ کے بیان کے فوری بعد امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے انکشاف کیا کہ افغانستان میں تعینات سینٹکام کمانڈر نے سپہ سالار جنرل باجوہ سے گفتگو کی ہے تاہم ترجمان نے اس کی وضاحت نہیں کی کہ دونوں میں کیابات ہوئی۔ ترجمان نے یہ بتانے سے بھی گریز کیا کہ اس وقت کس سطح پر بات چیت ہو رہی ہے۔ اسی کے ساتھ وزیر دفاع خرم دستگیر نے اعلان کردیا کہ امریکا سے تعاون ختم ہوگیا ۔ اب کیا وزارت دفاع کی طرف سے وضاحت آئے گی کہ یہ محض جذبات کا اظہار تھا۔ پاک فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اب روس سے دفاعی تعلقات بڑھائیں گے۔ پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل اعتراف کررہے ہیں کہ سلامتی کے مشترکہ مفادات میں تعاون علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ خیال رہنا چاہیے کہ امریکا جب مشترکہ مفادات کی بات کرتا ہے تو اس کا مطلب اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ عالمی سلامتی سے اس کا کیا تعلق۔ دریں اثناء بھارت میں متعین امریکی سفیر کینتھ جسٹر نے کہا کہ پاکستان کے بغیر افغانستان میں امن حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ گویا اب پاکستان کو چارہ ڈالا جارہا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کے پاس شاید اس کے سوا چارہ ہی نہیں۔