اندرونی و بیرونی قرضوں کی وجہ سے مالیاتی انتظام متاثر ہو رہا ہے، ابراہیم قریشی

617

تجارتی اور کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ ملکی معیشت کے لےے بڑے چیلنج ہیں، آل پاکستان بزنس فورم
مالی سال 2017-18ءمیں جولائی سے نومبر تک ملکی تجارتی خسارہ مجموعی قومی پیداوار کے 2.3 فیصد تک پہنچ چکا ہے
کراچی(اسٹاف رپورٹر)آل پاکستان بزنس فورم کے صدر ابراہیم قریشی نے کہا ہے کہ بڑی لاگت کے اندرونی و بیرونی قرضوں کی وجہ سے مالیاتی انتظام متاثر ہو رہا ہے، تجارتی خسارہ اور کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ ملکی معیشت کے لےے بڑے چیلنج ہیں جو حکومت کی دیگر شعبوں میں خراب اقتصادی کارکردگی ظاہر کرتا ہے۔ اپنے ایک بیان میں ابراہیم قریشی نے کہا کہ مالی سال 2017-18ء(جولائی سے نومبر تک) ملکی تجارتی خسارہ مجموعی قومی پیداوار کے 2.3 فیصد تک پہنچ چکا ہے، بھاری لاگت کے اندرونی و بیرونی قرضوں کے باعث حکومت مالیاتی انتظام کی راہ سے ہٹ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اعداد و شمار وفاقی حکومت کے دعوے کی نفی کرتے ہیں کہ جب گزشتہ مالی سال کے دوران بجٹ خسارہ 1.86 کھرب روپے ریکارڈ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ خسارہ اور کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ معیشت کے لئے بڑے چیلنج ہیں اور یہ حکومت کی اقتصادی کارکردگی کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان دونوں خساروں کی وجہ سے پاکستان ایک بار پھر عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے پاس ایک اور بیل آﺅٹ پیکیج کے حصول کے لئے رجوع کر سکتا ہے۔ آل پاکستان بزنس فورم نے کہا کہ حکومت اندرونی استحکام کو برقرار رکھنے کے لئے مضبوط اصلاحات لائے، قرضوں کی پائیداری اور بجٹ خسارہ کو کنٹرول کرتے ہوئے معاشی ترقی میں معاونت کو یقینی بنائے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ رجحان ظاہر کرتا ہے کہ سالانہ بجٹ خسارہ کا 4.1 فیصد ہدف جو گزشتہ سال جون میں پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا، جو قرضوں پر زیادہ اخراجات کی وجہ سے پانچ ماہ میں ہی حقائق سے دور ثابت ہوا ہے جو ملک کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ عالمی مارکیٹ سے مزید قرض حاصل کرے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق 2018ءکی پہلی سہ ماہی میں پاکستان کے کل بیرونی قرضے 2.09 ارب ڈالر ہیں۔ سرکاری طور پر حاصل کئے گئے بیرونی قرضے 90 کروڑ ڈالر جبکہ پبلک سیکٹر انٹر پرائز گارنٹڈ ڈیٹ 3 کروڑ 20 لاکھ ڈالر، پی ایس ایز نان گرانٹڈ ڈیٹ 53 ملین ڈالر جبکہ پرائیویٹ نان گرانٹڈ ڈیٹ 50 ملین ڈالر کے قریب ہیں۔ 67 کروڑ ڈالر کے قریب قلیل المدتی قرضوں کی مد میں ادا کئے گئے ہیں۔ قرضوں پر سود کی مد میں آئی ایم ایف کو تین کروڑ ڈالر، پیرس کلب کو 80 لاکھ ڈالر اور ملٹی لیٹرلز کو 9 کروڑ ڈالر ادا کئے گئے۔ ابراہیم قریشی نے کہا کہ ملک کے بیرونی قرضے 2 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں کمی کم بہاﺅ اور زیادہ بیرونی ادائیگیوں کی عکاس ہے۔ انہوں نے کہا کہ جولائی سے نومبر تک آمدنی اور اخراجات میں مجموعی خلاء826 ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے باوجود اس کے کہ تمام صوبوں نے اس مدت کے دوران 150 ارب روپے کی کیش سرپلس ظاہر کی۔ انہوں نے کہا کہ تجارتی خسارے کی بنیادی وجہ قرضوں کی واپس ادائیگی ہے۔ اندرونی و بیرونی قرضے جولائی سے نومبر تک 627 ارب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں۔ آل پاکستان بزنس فورم کے سربراہ نے کہا کہ قلیل المدتی اندرونی و بیرونی قرضوں پر بڑھتے ہوئے حکومتی توازن نے ڈیٹ سروسنگ لاگت میں اضافہ کر دیا ہے۔ روپے کی قدر میں گزشتہ سال کے دوران کمی نے بھی بیرونی قرضوں پر حکومتی لاگت میں اضافہ کیا ہے۔