پاکستان میں سال 2017 کے پہلے چھ ماہ کے دوران بچوں کے ساتھ زیادتی کے 768 واقعات پیش آئے جن میں سے 68 ضلع قصور سے رپورٹ ہوئے۔نجی سطح پر کام کرنے والی ایک تنظیم کی ششماہی رپورٹ 2017 کے مطابق تناسب کے اعتبار سے زیادہ تر واقعات دیہی علاقوں میں پیش آئے۔
ان اعداد و شمار سے پتہ چلا کہ گزشتہ سال کے پہلے چھ ماہ میں کل 1764 کیسز میں سے پنجاب میں 62 فیصد، سندھ میں 28 فیصد، بلوچستان میں 58، کے پی میں 42 اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں نو فیصد رجسٹرڈ ہوئے۔
نجی سطح پر کام کرنے والی تنظیم کی رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق وفاق اور صوبائی سطح پر اس قسم کا کوئی مربوط نظام موجود نہیں جس میں بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق مستند معلومات اور اعداد و شمار اکھٹے کیے جائیں۔
گزشتہ ایک سال کے دوران بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے 768 واقعات کے بارے میں کسی صوبائی اور وفاقی ادارے کے پاس ایسی کوئی تفصیل موجود نہیں ہے کہ ان میں سے کتنے کیسز میں ملزمان گرفتار ہوئے یا انھیں سزائیں سنائی جا سکیں۔صوبائی اور وفاقی حکام یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بچوں کے تحفظ میں اقدامات اور قوانین پر عملدرا?مد میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
رپورٹ کے مطابق اعداد و شمار سے پتا چلا کہ جنوری 2017 سے جون 2017 کے دوران بچوں کے ساتھ زیادتی اور تشدد کے سب سے زیادہ واقعات صوبہ پنجاب میں پیش آئے۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کے علاوہ ان پر تشدد اور کم عمری کی شادی اور دیگر مسائل کو بھی شامل کیا جائے تو بچوں کے خلاف جرائم کی کل تعداد 1764 بن جاتی ہے۔
گزشتہ دو برس میں اسلام آباد، قصور، لاہور، راولپنڈی، شیخوپورہ، مظفرگڑھ، پاکپتن، فیصل ا?باد، وہاڑی، خیرپور، کوئٹہ، اوکاڑہ اور سیالکوٹ ایسے اضلاع کے طور پر سامنے آئے جہاں بچوں کے تحفظ کے حوالے سے صورتحال تشویشناک ہے۔
دوسری جا نب ایک مقامی این جی او کے مطابق پاکستان میں بچوں سے زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ، روزانہ 11 معصوم بچے جنسی درندگی کا شکار بنتے ہیں۔پولیس ریکارڈ اور سماجی تنظیموں کے اعداد و شمار کے مطابق پچھلے 2 برس کے دوران پاکستان میں بچوں سے جنسی درندگی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
پولیس ریکارڈ اور مختلف تنظیمیں بتاتی ہیں کہ اوسطا ہر روز11 معصوم بچے جنسی درندگی کا شکار بنے ہیں اور صرف 2016ء میں ملک بھر میں 100بچے ایسے تھے، جو زیادتی کے نتیجے میں جان سے گئے، یا قتل کر دیے گئے۔اعداد و شمار کے مطابق پولیس تک پہنچنے والے کیسز میں سے 76 فیصد دیہی علاقوں میں جبکہ 24 فی صد شہری علاقوں کے تھے۔
ریکارڈ کے مطابق جنسی درندگی کا نشانہ بننے والے بچوں میں 41 فی صد لڑکے تھے ،اہم بات یہ ہے کہ بہت سے واقعات پولیس تک پہنچتے ہی نہیں، اس لیے ریکارڈ کا حصہ بھی نہیں بن پاتے ،اس جرم کیخلاف قانون سازی کے باوجود یہ سلسلہ نہیں رک رہا۔
اسکولوں کی سطح پر بچوں میں جنسی زیادتی سے بچاوٓ اور خود کو محفوظ رکھنے کی مہم پر کام کرنے والی تنظیم آہنگ کی سینئر ٹرینر نازو پیرزادہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہو ئے کہا کہ بچوں کی ہربات کو سنا جائے۔ان کا مزید کہناتھاکہ بچوں کے تحفظات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے اور انہیں جھٹلایا نہ جائے اس کے ساتھ ان کے رویوں میں آنے والی اچانک تبدیلیوں پر بھی غور کرنا چاہیے۔