سانحہ قصور اور ہم

474

عارف بہار

قصور میں سات سالہ بچی زینب اغوا اور زیادتی کے بعد قتل کر دی گئی تو انسانیت لرز کر رہ گئی۔ سانحہ ہمارے معاشرے کے وحشی پن کا ایک اور نقاب اُلٹ ڈالنے کا باعث بنا۔ یہ واقعہ ریاست اور قانون کی بے بسی، لاچارگی اور دیوالیہ پن کا ایک اور ثبوت ثابت ہوا۔ اس واقعے پر اگر شور نہ مچتا تو زینب کی قربانی بھی اس مصرعے کا عنوان پاتی کہ: ’’یہ خون خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا‘‘۔ یہ تو زینب کے معصوم لہو کی سج دھج تھی اور عمرے کی سعادت حاصل کرنے کی غرض سے دیارِحرم میں ا س کے والدین کی دعاؤں کا اثر تھا کہ زینب گم نامی کی قبر میں اُترنے کے بجائے ایک بھونچال کا باعث بن گئی۔ یہ لہو انسانی ضمیر کو جھنجوڑتا ہوا بہہ گیا اور اب بے حس اور لاپروا معاشرہ اور ریاست اپنے اقدامات کے ساتھ کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچ رہی ہے۔
زینب کا بہیمانہ قتل اور اس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ریاست کی بے بسی نے گلے سڑے نظام کے مستقبل کے آگے موٹا سا سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ کیا یہی وہ نظام اور طور طریقے ہیں جن کے ساتھ ہم نئے زمانوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کرچلنے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں؟۔ زینب کی کہانی بابا بلھے کے شہر قصور میں پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے پہلے کئی بچیاں اور بچے اس درندگی کا شکار ہو کر گم نامی کی قبر میں اترتے رہے ہیں۔ پولیس پہلے تو ایف آئی آر درج کرنے میں لیت ولعل سے کام لیتی رہی اور اگر شکایت درج بھی ہوئی تو ’’گاگی گے‘‘ کا روایتی راگ سنا کر فائل داخل دفتر ہو جاتی رہی۔ ہر واردات اور ہر معصوم کا لہو پینے کے بعد جرم اور درندگی جوان اور تازہ دم ہوتی رہی اور ہر معصوم لاشے کے ساتھ قانون کی حاکمیت اور خوف زرہ ہو کر قبر میں اترتا چلا گیا یہاں تک زینب کا واقعہ ہو گیا۔
تنگ آئے عوام نے پہلے تو پولیس سے مدد طلب کی مگر پولیس روایتی نوٹس لے کر خوب خرگوش کے مزے لینے میں مگن ہوگئی یہاں تک کہ زینب کی لاش ملی اور تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق علاقے کے عوام مشتعل ہوگئے۔ انصاف حاصل کیے بغیر، قاتل کا سراغ پائے بغیر زینب کو کفن پہنانے اور لحد میں اتارنے سے انکاری ہوگئے اور یوں غم زدہ فریادیوں پر پولیس نے سیدھی فائرنگ کی اور حادثے کے بعد ایک اور حادثہ رونما ہوگیا جس میں دو افراد جاں بحق ہوگئے۔ ہمارے سسٹم کے ہاتھ پاؤں پھول جانا اور عالم بدحواسی میں حماقتوں کی دلدل میں دھنستے چلے جانا معمول سا بن گیا ہے۔ زینب کے اغوا کے بعد پولیس کا لاپروائی اور غیر ذمے داری پر مبنی رویہ اور زینب کے قتل کے بعد پولیس کا جارحانہ پن عدم توازن کا جیتا جا گتا ثبوت ہے۔ ایک رویے نے زینب کو موت کے گھاٹ اتارنے میں معاونت کی دوسرے رویے نے سانحے کی کوکھ سے ایک اور سانحہ پیدا کیا۔ زینب کے قتل کے بعد اعلیٰ حکام کی طرف سے نوٹس لیا گیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف رات کے پچھلے پہر سوگوار خاندان کے آنسو پونچھنے قصور جا پہنچے، حسبِ روایت معاوضوں کے اعلانات بھی ہوئے بھی مگر یہ مسئلے کا حل نہیں۔ اب بات کسی ایک فرد اور واقعے تک محدود نہیں رہی بلکہ اس بات جائزہ لینا ضروری ہے کہ معاشرے میں وحشت اور درندگی کے یہ واقعات کیوں رونما ہورہے ہیں؟
کیا حکومت، معاشرہ، نصاب تعلیم اور میڈیا کہیں بے دھیانی میں ان رویوں کو فروغ تو نہیں دے رہا؟ پولیس کا ادارہ ملک میں اپنی ذمے داریاں پوری کرنے کے قابل کب ہوگا۔ پولیس کا کام حکمران طبقات کو تحفظ دینا ہی رہ گیا ہے۔ اس کیس میں پولیس کی مجرمانہ غفلت سب سے زیادہ قابل اعتراض بنی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ زینب کے اہل خانہ سول اداروں کے بجائے فوج اور عدلیہ سے مدد مانگتے پائے گئے۔ پنجاب حکومت نے بھی اس غفلت کا علاج چند اہلکاروں کو معطل کرنے ذریعے کرنے کی کوشش کی مگر اس ادارے کی تنظیم نو اور تشکیل نو اور اسے غیر سیاسی بنائے بغیر دوبارہ فعال نہیں کیا جا سکتا اور یہی اس مسئلے کے مستقل حل کی جانب اہم قدم ثابت ہوسکتا ہے۔ حکومت اور ریاستی اداروں کو فعال کرنے کے لیے کسی حادثے کا میڈیا میں اُجاگر ہونا ضروری ہو گیا ہے۔ قصور میں زینب سے پہلے گیارہ بچیاں اسی انجام کو پہنچ گئیں مگر ان بچیوں کا خون کسی ترازو پر تُل نہ سکا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ بچیوں کی بہیمانہ انداز سے موت میڈیا میں زیادہ وقت اور توجہ نہ پاسکی تھی۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس ظلم اور جرم کی اس فائل کو روایتی اور معمولی طور طریقوں سے داخل دفتر کرنے کے بجائے خطرے کا مقابلہ انقلابی انداز سے کیا جائے۔ بچوں کو ایسے جرائم پیشہ افراد کے مقابلے میں حفاظتی تدابیر سکھانے کے لیے آگہی مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس معاملے کو نصاب کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔ اس طرح کے واقعات کا سدباب روایتی اور گھسے پٹے قوانین اور قانونی طریقہ کار سے ممکن نہیں بلکہ اس کے خصوصی اور ہنگامی نوعیت کے قوانین بنانا ناگزیر ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ ایسے قوانین بنائے جائیں اور بناکر طاق میں نہ سجائے جائیں جن کے تحت اس قبیح فعل کے مرتکب شخص کو عبرتناک سزادی جا سکے۔