امریکا کی نام نہاد جنگ میں پاکستان کا بے پناہ نقصان ہوا، میاں مقصود

635

لاہور (وقائع نگار خصوصی) امیر جماعت اسلامی پنجاب میاں مقصود احمد نے آرمی چیف کے بیان کہ ’’پاکستانی سمجھتے ہیں کہ امریکا نے ہمیں دھوکہ دیا، امریکا کو امداد کی بحالی کانہیں کہیں گے‘‘ کو خوش آئندقراردیتے ہوئے کہا ہے کہ جماعت اسلامی آرمی چیف کے اس بیان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔چند ڈالروں کے عوض ملک وقوم کی خودمختاری اور سلامتی کوہرگز داؤپر نہیں لگایاجاسکتا۔حالیہ دنوں میں جس طرح امریکا نے پاکستان کے ساتھ بے اعتنائی کا رویہ برتاہے اور ہمارے دشمن بھارت پر نوازشات کی بارشیں شروع کردی ہے اس سے ثابت ہوگیا ہے کہ امریکا خطے میں صرف اور صرف اپنے مفادات کاحصول چاہتاہے۔انہوں نے کہاکہ امریکا افغانستان میں اپنی ناکامیوں کا ساراملبہ پاکستان پر ڈال کر دنیا کی نظروں میں سرخرو ہونا چاہتا ہے۔ پاکستان نے نائن الیون کے بعد جس طرح امریکا کی نام نہاد جنگ میں حصہ لیا اور اپنا بے پناہ نقصان کیا اس کا عالمی برادری کو ادراک ہونا چاہیے۔ امریکی دھمکیوں سے ثابت ہوتاہے کہ وہ پاکستان کا دوست نہیں بلکہ ایک کھلا دشمن ہے۔ امریکا کی اس نام نہاد جنگ میں ہمارے60ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بنے ہیں اور ملکی معیشت کوبھی120ارب ڈالر سے زائد کانقصان ہواہے مگر اس کے باوجود امریکا کا امداد کاطعنہ دینا اور ڈومور کامطالبہ سراسر غلط ہے۔ہمیں امریکا کی اس جنگ سے جان چھڑانی ہوگی تبھی جاکر ہم پاکستان کوامن کا گہوارہ بناسکتے ہیں۔جنگ اور امن دونوں ساتھ نہیں چل سکتے۔ انہوں نے کہاکہ اب وقت آگیاہے کہ حکومت پاکستان ایسی پالیسیاں بنائے جن کاحقیقی معنوں میں ملک وقوم کو فائدہ پہنچے۔ہمیں امداداور قرضے لینے کی روش ترک کرنی ہوگی۔اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ہر قسم کے وسائل سے نوازاہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان سے وسائل سے بھر پور انداز میں استفادہ کیا جائے۔ میاں مقصوداحمد نے مزید کہاکہ نئی امریکن انتظامیہ دنیا میں خون خرابہ چاہتی ہے اور اس کے لیے وہ راہ ہموار کررہی ہے۔ پاکستان کو امریکا سمیت تمام ممالک کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ حکمرانوں نے ملکی آزادی، خودمختاری اور سلامتی کو داؤ پر لگادیا ہے۔ امریکا پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتا ہے ہمیں اس کی چال کو سمجھتے ہوئے اپنے مستقبل کافیصلہ کرنا چاہیے اور امریکا کے بجائے ہمیں چین، ایران، سعودی عرب، ترکی اور دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ مل کرترقی وخوشحالی کی جانب آگے بڑھنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل بنانا چاہیے۔