کراچی ( تجزیہ : محمد انور ) ملک کے چیف جسٹس جناب جسٹس ثاقب نثار نے ہفتے کو سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری آفس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ، پراسیکیوشن تفتیش صحیح نہیں کرتی اور الزام عدلیہ پر آجاتا ہے کہ انصاف نہیں ملا۔لوگ کئی سال جیل میں رہتے ہیں، کیس جب سپریم کورٹ میں آتا ہے توپتا چلتا ہے وہ بے گناہ ہیں۔ کئی کئی سال تک بے گناہ لوگ جیلوں میں رہتے ہیں، ان کے لیے کیا ہرجانہ ہے؟جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ جتنے بھی زیر التوا کیسز ہیں ان کا بخوبی اندازہ ہے۔ عدالتی
اصلاحات کی مہم کو تیز کرنا ہے، مقدمات تیزی سے نمٹانے کا براہ راست فائدہ سائلین کو ہوگا۔مجھے سب سے اچھا کام پنجاب میں نظر آیا ہے، وہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی کوبروئے کار لایا گیا ہے، پنجاب میں ماڈل کورٹس بنائی گئی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کس دور میں جی رہے ہیں؟ پنجاب کے سوا پاکستان میں کہیں بھی معیاری فرانزک لیب نظرنہیں آئی۔ 31دسمبر 2016 کو چیف جسٹس پاکستان کی ذمے داریاں سنبھالنے والے جسٹس ثاقب نثار کی ججوں سے گفتگو یقیناًپوری قوم کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگی مگر قوم کو یہ بات بھی سوچنے اور سوال کرنے کا حق ہے کہ چیف جسٹس کو عدالتوں کے ہاتھوں پریشان حال افراد کا علم اور احساس کب ہوا ؟ ایک ایسے وقت میں جب پنجاب کے شہر قصور میں 7 سالہ زینب کے واقعے نے لوگوں کے اذہان کو منجمد کرکے رکھ دیا ، پوری قوم زینب کے واقعے کے تناظر میں اپنی بیٹیوں کے مستقبل سے فکرمند ہوگئی۔ایسے میں چیف جسٹس کے جانب سے عدلیہ کے نظام اور رائج قوانین کو مزید بہتر بنانے پر زور سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ عدلیہ نہ صرف اپنے نظام کی خامیوں سے واقف ہے بلکہ جلد سے جلد انصاف بہم پہنچانے کی خواہشمند بھی ہے۔ چیف جسٹس کی باتیں سن کر عوام کو اس بات کا بھی علم ہوا کہ ” پنجاب میں ماڈل کورٹس بنائی گئیں ہیں اور پنجاب کے علاوہ ملک میں کہیں بھی معیاری فرانزک لیب نہیں ہے جبکہ وہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا گیا ہے ۔ اس” ہجوم نما ” بے خبر ” قوم ” کو چیف جسٹس نے صوبے کے نظام اور پنجاب صوبے کی ترقی کا ” آئینہ ” دکھاکر یقینآ ” باخبر ” کردیا ہوگا۔جس کے لیے قوم کو ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ پنجاب میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے جس طرح جرائم کا خاتمہ کیا جارہا ہے اور خصوصا بچوں کے ساتھ ہونے والے جرائم کے ملزمان کو ” گھنٹوں کے اندر “پکڑا جارہا ہے یقیناًوہ بھی قابل تعریف عمل ہوگا ؟۔ اب یہ الیکٹرونک میڈیا اور اخبارات کا اور حکومت مخالفین کا واویلا ہوگا کہ پنجاب حکومت صرف ” شریفوں ” کے تحفظ کے لیے سرگرم ہے اور وہاں جرائم پیشہ نہ صرف حکومتی گرفت سے باہر ہیں بلکہ حکومتی عناصر ان کی پشت پناہی بھی کرتے ہیں۔ پہلی بار قوم کو یہ بھی احساس ہوا ہوگا کہ ملک کے ” ذمے دار ” تمام حالات سے بخوبی واقف ہیں لیکن ” قانون سازی ” ان کا کام نہیں ہے۔ قوم کو چیف جسٹس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انہوں نے مختلف امور پر اب تک قائم کیے گئے کمیشن پر بھی مبہم اظہار خیال بلکہ تحفظات کا اظہار بھی کردیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ ” اس پر ابھی نہیں پھر کبھی بات کی جائیگی۔