زینب کے قاتل کیوں نہیں پکڑے گئے؟

479

وزیراعلیٰ پنجاب نے چند گھنٹوں میں زینب کو جیل بھیجنے کا وعدہ کیا تھا آرمی چیف نے بھی گرفتاری میں معاونت کی ہدایت کی تھی۔ چیف جسٹس پاکستان نے بھی نوٹس لیا تھا اور قومی اسمبلی کی کمیٹیوں اور نہ جانے کس کس نے نوٹس لیا تھا۔ہر روز میڈیا طرح طرح کے انکشافات کررہاہے کوئی بازار سے گزر رہاتھا ادھر ادھر کیوں دیکھ رہا تھا۔ کسی فوٹیج میں کوئی اور نظر آیا، ایک فوٹیج ایسی ہے جو سب کے پاس ہے لیکن تماشا یہ ہے کہ اب فارنزک ٹیموں نے قصور کے تمام مردوں کا ڈی این اے کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔پورے صوبے کے ڈی این اے بھی کروا دیکھیں۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اب کہاہے کہ معاملے کے سائنٹفک انداز میں تفتیش کی جائے۔ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ زینب کے معاملے پر مزید گرد پڑتی جارہی ہے۔ پہلے سارے ٹی وی چینلز ایک ہی فوٹیج پر متفق تھے اب نئے خاکے بھی جاری ہوگئے ہیں۔ تین افراد کو حراست میں لینے کی بھی اطلاع ہے۔ خدا کرے کہ حکومتی ادارے زینب کے قاتل کو پکڑلیں۔ لیکن پاکستانی پولیس اور اداروں سے خطرہ یہ رہتا ہے کہ کسی کو بھی پکڑ کر قاتل قرار دے سکتے ہیں اور ایسا کئی مرتبہ ہوا ہے۔ اب بھی یہی خدشہ ہے کہ دباؤ بڑھنے پر کسی کو بھی پکڑ کر معاملہ عدالت کے حوالے کردیا جائے گا۔ دس پندرہ دن ریمانڈ میں اورباقی کام عدلیہ پر۔ وہ ثبوت مانگتی رہے گی اور کئی ماہ گزر جائیں گے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ نہ حکومت زینب کے معاملے میں سنجیدہ ہے اور نہ لاہور سے قصور پہنچ کر جنازہ پڑھانے اور حکومت گرانے والے سنجیدہ ہیں حکومت کا سارا زور اقتدار بچانے پر ہے اور اپوزیشن کا سارا زور حکومت گرانے پر پھر زینب کہاں گئی؟۔