چیف صاحب کام ادھورا نہ چھوڑیں

415

خدا خدا کرکے کراچی میں کثیر المنزلہ عمارتوں پر عدالت عظمیٰ کی پابندی میں مشروط نرمی ہوئی اور کچھ تعمیراتی سرگرمیاں بحال ہونے کی امید ہے۔ اسی طرح عدالت عظمیٰ نے کراچی کے عوام کی جان واٹر ٹینکر سے چھڑانے کی نوید بھی سنائی ہے لیکن ابھی تک عدالت عظمیٰ ٹینکر مافیا کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں مصروف ہے۔ چیف جسٹس نے وکلا سے کہاہے کہ کھل کر بتائیں کہ مافیا میں کون لوگ ہیں ان کی باتیں سب کرتے ہیں نام کوئی نہیں لیتا۔ ظاہری بات ہے نام لینے سے کوئی مجرم تو ثابت نہیں ہوتا لیکن اب جب کہ عدالت عظمیٰ نے ٹینکر مافیا کو چھیڑ ہی دیا ہے تو پھر اس کام کو درمیان میں نہ چھوڑا جائے ورنہ جو کچھ ہوگا وہ اہل کراچی طویل عرصے سے بھگت رہے ہیں۔ کبھی عدالت کبھی حکومت اور کبھی واٹر بورڈ اچانک کسی علاقے کا ہائیڈرنٹ یا پورے شہر کے ہائیڈرنٹ بند کردیتی ہے اس کے بعد اسی شام کو یا اگلے روز کوئی جادو ہوتا ہے اور ہائیڈرنٹ پوری آب و تاب سے کھلا ہوتا ہے۔ نتیجہ صرف یہ ہوتا ہے کہ 6 سو روپے والا ٹینکر دیکھتے ہی دیکھتے 15 سو کا اور 1000 روپے والا آج 6اور 8 ہزار کا ہوگیا ہے۔ جس روز نیپا اور دوسرے ہائیڈرنٹ بند کیے گئے اس روز 5 سو روپے میں ملنے والی پانی کی چھوٹی ٹنکی 6 سو اور سات سو میں فروخت کی گئی اور اگلے دن وہی ہائیڈرنٹ کھل گئے۔ اگر اس مافیا یا کینسر پر اس طرح کا آدھا پونا ہاتھ ماراگیا تو یہ صرف ان کو فائدہ پہنچائے گا اور عوام کے لیے پانی مزید مہنگا ہوجائے گا۔ عدالت نے یہ سوال کئی برس قبل اٹھایا تھا کہ ٹینکرز کے لیے پانی لائن سے ہی آتا ہے تو پھر ٹینکر کیوں چلائے جارہے ہیں؟ ٹینکروں کے لیے پانی کہاں سے آتا ہے۔ سوال اب بھی اپنی جگہ موجود ہے اور عدالت عظمیٰ کے سامنے اس کے جواب دہندہ بھی موجود ہیں کراچی کے چند بڑے واٹر ٹینکر سپلائرز کو عدالت میں طلب کرلیں چند منٹوں میں ساری مافیا سامنے آجائے گی۔ ان سے پوچھا جائے کہ آپ ایک دو ٹینکر سے 60 ستر اور 100 ٹینکرز تک کیسے پہنچے۔ ہائیڈرنٹ کس نے الاٹ کیا اس کے عوض کیا ادائیگی کی اور پانی کی قیمت کس نے مقرر کیا۔ واٹر بورڈ فی گھر چند سو روپے ماہانہ کا بل بھیجتا ہے لوگ یہ بل ادا کریں یا نہ کریں ٹینکر سے پانی ضرور لینا پڑتا ہے۔ اگر بل ادا نہیں کررہے تو ایک ماہ کا بل ایک چھوٹی ٹنکی کی قیمت میں پورا ہوجاتا ہے۔ پانی کی جو قیمت مقرر کی گئی ہے وہ نہایت غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ پانچ ہزار گیلن کا ٹینکر پہلے پانچ ہزار میں ملتا تھا لیکن دو تین ماہ قبل واٹر بورڈ نے اپنے سرکاری ٹینکر کی قیمت میں اضافہ کرکے تقریباً دو گنا کردیا ہے۔ اس کے نتیجے میں پرائیویٹ ٹینکر مالکان نے بھی قیمت بڑھادی ہے۔ واٹر بورڈ کو اگر تمام بل باقاعدگی سے بروقت مل جائیں تو بھی اس کو اس رقم سے زیادہ ملتی جو وہ ہائیڈرنٹ سے حاصل کرتا ہے کیونکہ اس کام میں درمیان کے بہت سے لوگوں کی جیبوں میں رقم جاتی ہے۔ ایک جائزے کے مطابق واٹر بورڈ کو تقریباً سات آٹھ کروڑ روپے ٹینکرز کے ذریعے ملتے ہیں۔ اگر فی گھرانہ پانی کا استعمال دیکھا جائے تو بھی ہر گھر کو ٹینکروں کے ذریعے پانچ چھ ہزار سے دس ہزار تک کا پانی خریدنا پڑتا ہے۔ اب جب کہ عدالت نے واٹر ٹینکر بند کرنے کا عندیہ دیا ہے تو اس کا راستہ صرف یہ ہے کہ پانی کی لائنوں کی مرمت کی جائے، لیکیج ختم کیا جائے۔ گٹر کی لائنوں اور پانی کی لائنوں کو فاصلے سے لگایاجائے یہ ناممکن نہیں ہے۔ اگر شہر میں کہیں لائن ٹوٹی ہوئی ہے تو ایسے مقامات جتنے زیادہ بھی ہوں ان کی مرمت شروع کردی جائے۔ یہ جو جگہ جگہ پانی کی فراہمی شروع ہوتے ہی سڑکیں پانی سے بھرجاتی ہیں گٹر لائنوں میں بھی پانی آنے لگتا ہے اور پانی کی لائنوں میں گٹر کا سیاہ پانی بھی آتا ہے چیف صاحب اس مافیا میں واٹر بورڈ کے افسران پرانے اور نئے سب ملوث ہیں یا تو وہ حصہ لیتے ہیں یا پھر کسی دباؤ کی وجہ سے خاموش ہوجاتے ہیں۔ مال بٹور کر ہائیڈرنٹ بنانے والے تو چلے گئے ان میں وردی والے بھی تھے اور بغیر وردی والے بھی۔ عدالت سے ہماری درخواست ہے کہ اس کام کو ادھورا ہرگز نہ چھوڑا جائے ورنہ پھر پانی مہنگا ہونے کے سوا کوئی کام نہیں ہوگا۔ جہاں تک عدالت کی جانب سے 6 منزلہ عمارتوں کی اجازت دینے کا معاملہ ہے اس سے یقیناًتعمیراتی صنعت کو کچھ سکھ کا سانس ملے گا لیکن یہاں بھی بے ایمان مافیا موجود ہے۔ ان احکامات کو غلط استعمال بھی کریں گے اور نت نئے قوانین بھی بنائے جائیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ نئی سبزی منڈی سے آگے والوں کے منصوبوں پر چیف جسٹس نے کچھ رکاوٹیں اور پابندیاں عاید کیں بلکہ انہیں قانون کے دائرے میں لانے کی ہدایت کی ہے تو 6 منزلہ عمارتوں کے لیے گنجائش نکل آئی۔ پانی تو اب بھی شہر میں اتنی ہی مقدار میں ہے جتنا پابندی سے پہلے تھا۔