قصور جیسے واقعات۔۔۔ علاج اسلامی سزائیں 

445

مظفر اعجاز
شدید کرب کی کیفیت ہے ۔ ایسے واقعے کو زیر بحث لانا جس کے دہرانے کے حوالے سے بھی شریعت کئی شرائط رکھتی ہے ۔ یوں ہی ہر خاص و عام کو سر عام تبصرے اور سیاست کرنے کا تو حق ہی نہیں دیا گیا کجا کہ امت کے بیوقوف لوگ (دو بیضہ) ٹی وی چینلوں پر قصور کے واقعے کے ذمے داروں کا تعین کر رہے ہیں اور سزائیں تجویز کر رہے ہیں ۔ یہ اور زیادہ تکلیف دہ بات ہے ۔ہم قصور کے قصور وار کو پکڑنے اور اسے سزا دینے کا ذمے دار تو حکومت پنجاب ہی کو سمجھتے ہیں واقعے کی ذمے دار تو بہر حال حکومت پنجاب نہیں ہے لیکن حکومتوں کی نا اہلی اور مسلسل غفلت نے حالات کو یہاں تک پہنچایا ہے ۔ قصور کی بات کیا کریں یہ اس درندہ نظام کا شاخسانہ ہے جس کو فوج کے جرنیل اور کرپٹ سیاستدانوں نے مضبوط بنایا ہے ۔ آج کل جمہوریت کے نام پر ایک ٹولہ حکومت اور ایک اپوزیشن میں ہے اور ایک دوسرے کا تحفظ کر رہا ہے ۔ یہی ٹولہ مارشل لاؤں میں بھی راج کرتا ہے ۔ لیکن سماجی ذرائع ابلاغ میں کوئی اور مہم چل رہی ہے ۔ ٹی وی چینلوں پر کوئی اور مہم چل رہی ہے اس مہم کا کوئی سرا نہیں ہے ۔ کوئی ٹی وی چینل ایک فوٹیج نکال کر لایا کہ ایک شخص اس روڈ دکانوں کے سامنے سے دو مرتبہ گزرا اور اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا ۔ بیشتر ٹی وی چینلو کے پاس ایک ہی فوٹیج ہے جس میں بچی اسی لباس میں جاتی نظر آئی جس میں اس کی لاش ملی لیکن پیش رفت کے نام پر جو آدمی دکھایا گیا اس کا حلیہ اس شخص سے قطعاً مختلف ہے سب سے زیادہ اہمیت میڈیا کے نزدیک یہ ہے کہ جس شخص کو وہ مشتبہ قرار دے رہا ہے اس کی ڈاڑھی ہے ۔ لیکن یہ کوشش اس لیے ناکام و گئی کہ اس بچی کے ساتھ جو فوٹیج ہے وہ سب کے پاس ہے ۔ اور یہ ایک شخص کے بازار میں چلنے پھرنے کی ہے اسے بلاوجہ مشتبہ بنایا جا رہا ہے ۔ جنون اس قدر پھیلا دیا گیا ہے کہ اگر وہ شخص سامنے آ کر کہے کہ میں تو موجود ہوں میں نے کچھ نہیں کیا تو اس کی شامت اگر علاقہ چھوڑ کر چلا گیاتو فرار کا الزام۔ دُکانداروں سے احمقانہ سوال کیا جار ہا ہے کہ آپ اس آدمی کو جانتے ہیں۔ یہ پہلے کبھی یہاں نظر آیا ۔ تو کیا بازار میں پھر گاہک اور ہر گزرنے والا بھی آیا ہوتا ہے دُکانداروں سے تعارف کراتا ہے ۔
واٹس اپ گروپوں کا کہنا ۔۔۔ سب سے زیادہ ظلم تو جماعت اسلامی پر یار لوگوں نے کر ڈالا۔۔۔ کہ وہ کیوں کچھ نہیں کر رہی ۔ اسے ہڑتال کرنی چاہیے تھی اسے یہ کرنا چاہیے تھا یا مجرم کو تلاش کرنا اور عدالت میں لے جانا چاہیے تھا ورنہ کم از کم موم بتیاں روشن کرنی چاہیے تھیں ۔ لیکن ایک بات پر سب متفق ہیں کہ مجرموں کو سر عام پھانسی دینی چاہیے ۔ اس مطالبے میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو چور ڈاکو کی سزا ہاتھ کاٹنے یا زانی کو کوڑے مارنے کی سزا کے مخالف ہی نہیں ان سزاؤں کو غیر انسانی قرار دیتے ہیں وحشیانہ کہتے ہیں اور وہ بھی یہی جو جنرل ضیاء کو کہتے ہیں لیکن مثال سب جنرل ضیاء کے زمانے کی دے رہے ہیں جس میں کسی پپو کے قاتلوں کو ٹکٹکی پر دن بھر لٹکایا گیا اورپھر واٹس اپ کے آخر میں بتایا گیا کہ پھر پانچ سال تک کوئی وار دات نہیں ہوئی ۔ جمہوریت زندہ باد۔۔۔اب تو ان مجرموں نے کرپٹ اور بے ایمان سیاستدانوں کی گود میں پناہ لے لی ہے ۔
یہ اتنا بڑا تضاد ہے کہ اس پر ایک لفظ تین مرتبہ لکھ دینا چاہیے۔۔۔ واہ ۔ واہ ۔ واہ یہ مطالبہ کرنے والے ہیں تو مسلمان گھرانوں کی پیدا وار اور کچھ نہ کچھ اسلامی تاریخ بھی ان کے کانوں تک پہنچی ہوئی ہے ۔ کسی نہ کسی طرح شرعی سزاؤں کی برکات سے بھی واقف ہیں یا ان کے ذہنوں میں یہ تصور ہے کہ اس طرح کی سزاؤں سے عبرت ہوتی ہے لیکن جوں ہی یہ کہا جائے کہ اسلامی تعزیرات نافذ کر دی جائیں یہ سارے متفق لوگ بھڑک اٹھیں گے ۔ اب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ چین کے ماؤزے تنگ کے انصاف کی مثالیں دی جانے لگی ہیں ۔ چین کی تاریخ کو کون کھنگالے گا ۔ لیکن یہ مثال یوں ہی نہیں دی گئی ۔۔۔ آنے والے دن چین یا چینیوں کے ہیں تو پھر اس کی مثالیں تو دی جائیں گی ۔ تحقیق کون کرتا پھرے گا کہ آیا ہوا ہو گا کہ ماؤزے تنگ نے کب اور کہاں ایسا کیا تھا۔۔۔ اگر کوئی ان لوگوں کو یہ بتا دے کہ چوک پر لاش لٹکانے کا عمل سعودی عرب میں ہوتا تھا لیکن جس کے نتیجے میں اگر سال بھر میں 18 لوگوں کو سزائے موت دی جاتی تھی تو ایک کروڑ 80 لاکھ لوگ سعودی عرب میں امن و امان سے رہتے تھے ۔ چلیں زینب کے حوالے سے سہی شرعی سزائیں تو یاد آئیں۔ مسئلے کا حل بھی یہی ہے ۔ جب تک اسلامی شرعی قوانین نافذ نہیں ہوں گے ۔ یہ انگریز کا گنجلک عوامی نظام مجرموں کو بچاتا رہے گا۔ دس دس پندرہ پندرہ سال مقدمات چلنے کے بعد اور مرنے کے بعد فیصلے ہوں گے ۔ چیف جسٹس ، آرمی چیف ، وزیر اعلیٰ پنجاب قومی اسمبلی کی کمیٹی میڈیا سے لے کر پورے پاکستان نے زینب کے قتل کی خبر کو اچھالا زینب جان سے گئی ۔ گھر والے غم میں ہیں اور میڈیا اور سیاسی کھلاڑیوں کو جھنجھنا مل گیا ۔ آصف زرداری اپنی بیوی کے قاتلوں کو چھوڑ کر زینب کے قاتل پکڑے کی بات کرتے ہیں ۔ ان کی پارٹی سندھ میں بر سر اقتدار ہے پورے صوبے میں ہر ضلعے میں سیکڑوں زینبیں لُٹ رہی ہیں ۔
یہ جو جمہوریت کو طعنہ دیا جا رہا ہے لوگ جنرل پرویز کو بھول گئے جن کے دور میں عافیہ کو فروخت کر دیا گیا وہ اس صورتحال سے ایک بار نہیں بار بار گزری کسی نے نوٹس نہیں لیا ۔ بلوچستان میں لیڈی ڈاکٹرسے زیادتی مشرف ہی کے دور میں ہوئی ۔ فوجی آمر زندہ باد کا نعرہ نہیں لگا ۔ یہ جھوٹی باتیں پھیلائی جار ہی ہیں کہ ایک سزا کے بعد دس سال تک کوئی واقعہ نہیں ہوا ۔ پورا ملک ایسے جبر کے واقعات سے بھرا پڑا ہے ۔ یہی جمہوریت مردہ باد۔۔۔ارے کراچی میں صرف 2017ء میں 169 واقعات ہوئے 120 ملزم پکڑے گئے کسی کو سزا نہیں ہوئی لیکن حیرت ہے کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ ہے ناں عجیب بات کراچی میں 169 واقعات کا کوئی نوٹس نہیں قصور کا واقعہ پورا پاکستان ٹوٹ پڑا۔ مسلم لیگ پنجاب حکومت اور جمہوریت ذمے دار میڈیا کے ڈرامے جاری۔۔۔ اور اب معصوم بچوں کو جنسی تعلیم کی باتیں۔۔۔ ان کا جواب ہم نے واٹس اپ پر تو دے دیا ، اخبار کی زینت نہیں بنانا چاہتے ۔ بس اتنا ہی کافی ہے ۔