بابا الف کے قلم سے
کسی علاقے میں ایک بہت خوب صورت باغ تھا۔ سبزے سے آراستہ، پھولوں سے لدا ہوا۔ پریاں اور تتلیاں قطار اندر قطار اس باغ میں اترتی تھیں۔ وہ ان بچوں سے ملنے آتی تھیں جو پورے علاقے سے باغ میں کھیلنے آتے تھے۔ روش روش پر پھول اور بچے ساتھ مہکتے اور چہکتے تھے۔ پھولوں پر منڈلاتیں شہد کی مکھیاں، تتلیاں، بھونرے اور اچھلتے کودتے بچے ایسے لگتے جیسے باغ رقص کر رہا ہو۔ مالی حیران تھا باغ میں اتنے پھول کہاں سے آتے ہیں۔ وہ ایک قلم لگاتا، دس پودے اُگ آتے اور چند دنوں میں پھولوں سے بھر جاتے۔ باغ کے مالک کو اپنے باغ پر بہت ناز تھا۔ اس کے باغ میں پورا سال موسم گل تازہ رہتا تھا۔ لیکن اسے ایک افسوس تھا۔ اس کا باغ پورے دن بچوں سے بھرا رہتا تھا۔ اس کا خیال تھا بچے باغ کو خراب کرتے ہیں۔ وہ باغ میں بچوں کے داخلے پر پابندی لگانا چاہتا تھا لیکن نجانے کیوں رک جاتا۔ بہت سوچ بچار کے بعد ایک دن اس نے بچوں کے باغ میں داخلے کے اوقات متعین کردیے۔ باغ کھلنے سے گھنٹوں پہلے ہی بچے باہر جمع ہوجاتے اور گیٹ کھلتے ہی ایک شراٹے سے اندر داخل ہو جاتے۔ پھولوں کے رنگ، جھومتی شاخیں، بچوں کے بکھرتے قہقہے اور ان کی سمت اترتے خوش نوا پرندے سب ایک دوسرے کو مہکتے گدگداتے بوسے دیتے تو ذراسی دیر میں باغ پھر خوشیوں اور روشنیوں سے بھر جاتا۔ مالک نے محسوس کیا اس پابندی کے بعد بچے کچھ زیادہ ہی اچھلنے کودنے اور باغ کو خراب کرنے لگے ہیں۔ تنگ آکر اس نے باغ کو بند کردیا۔ بچے روزانہ آتے اور باغ کا بند دروازہ دیکھ کر مایوسی سے واپس لوٹ جاتے۔ مالک ہفتے کے ہفتے باغ کی سیر کو آتا۔ اس نے محسوس کیا رفتہ رفتہ باغ کی رونقیں ماند پڑتی جارہی ہیں۔ نئے پھولوں نے کھلنا بند کردیا ہے۔ پرانے پھول بھی بہت جلد پژمردہ رہ کر مرجھانے لگے ہیں۔ گھاس کا رنگ بھی مدہم پڑنے لگا ہے۔ کچھ ہی وقت گزرا باغ کا نقشہ ہی پلٹ گیا۔ گھاس جلی ہوئی، شاخیں مردہ اور جھکی ہوئی۔ شہد کی مکھیاں، پریاں، تتلیاں، بھونرے اور خوش نوا پرندے تو جیسے باغ کا رستہ ہی بھول گئے تھے۔ مالک اپنے باغ کے یوں اجڑنے پر بہت افسردہ تھا۔ ایک دن اس نے دیکھا باغ کی دیوار کے پاس ایک بڑا اور خوب صورت سا پھول کھلا ہوا۔ اس نے جھک کر پھول کو دیکھا۔ ایک بچہ دیوار کے سوراخ سے آنکھ لگائے پھول کو دیکھ رہا تھا۔
باغوں، چشموں، جنگلوں، پہاڑوں اور ندیوں سے زینت دی گئی یہ دنیا رہنے کی جا نہیں اگر بچے نہ ہوں۔ بادلوں سے کھیلتی ہوائیں، پرندوں سے باتیں کرتے پیڑ، کرنوں سے گلے ملتے سبزے دنیا سے کنارہ کرلیں گر بچے نہ ہوں۔ بچے اس دنیا کا لطف ہیں۔ قریہ جمال کی ہر خوب صورتی ان کے دم سے ہے۔ بچے نہ ہوں تو سیر عالم بے معانی۔ بچے نہ ہوں تو زندگی، زندگی نہیں دوجہانوں کی تھکن ہے۔
ایک چینی شاعر کا بچہ مرگیا۔ اس نے لکھا ’’وہ تتلیوں کی تلاش میں دور نکل گیا ہے۔‘‘ زینب کے متعلق کیا تحریر کیا جائے۔ ایسی تشنہ بیانی سے کب واسطہ پڑا تھا۔ وہ قرآن کی روشنی کی تلاش میں نکلی تھی مگر آج روشنی کے لیے فریاد کناں ہے۔ جنت میں آج وہ پھولوں، تتلیوں اور پریوں کی سہیلی ہے مگر ہمارے لیے ایک رنج مستقل۔ وہ ایک مون سون تھی جو آنکھوں میں ایسی بسی ہے کہ آنسوؤں کی جھڑی تھمنے میں نہیں آرہی ہے۔ برکھا رُت کو کھیلنے کے لیے اس برس زینب دستیاب نہ ہوگی۔ اسے آم بہت پسند تھے۔ امبوا کی ڈاریوں پر اس برس بھی آموں کے شہزادے آئیں گے اور قبر میں اسے نندیا کرتے دیکھتے گزر جائیں گے۔ کوڑے دان پر پڑی اس کی لاش دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے قبل ہجر زمانے میں زندہ ہوں۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ سال کے ابتدائی چھ ماہ میں ملک بھر میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 768 واقعات ہوئے ہیں جن میں سے 68صرف قصور میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ المیہ در المیہ یہ کہ کسی ایوان میں کسی نے اس موضوع پر کوئی بات نہیں کی۔ اخبارات میں بھی یہ خبریں یک کالمی اور حد سے حد دو کالمی شائع ہوئیں۔ لوگ پڑھتے بھی نہیں ہیں۔ زینب چار جنوری کو اغوا ہوئی۔ اخبارات کے صفحہ آخر پر خبر شائع ہوئی۔ بچی کی لاش کوڑے دان پر پڑی ملی تب سوشل میڈیا پر حشر برپا ہوا۔ مظاہرے اور ہنگامے شروع ہوئے۔ پورا قصور سڑکوں پر نکل آیا تب اہل اقتدار، مقامی انتظامیہ اور اہل سیاست ہوش میں آئے۔ ہوش میں آنے کے بعد پولیس نے کیا کیا۔ مظاہرین پر سیدھی گولیاں چلائیں۔ دو افراد جان سے گئے اور متعدد زخمی ہوگئے۔ بچی کا جنازہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے پڑھایا۔ اس موقع پر بھی وہ سیاست بازی سے باز نہیں آئے۔ کیا کسی حساس دل کے لیے ممکن تھا کہ زینب کے علاوہ کچھ اور سوچ سکتا۔ کچھ اور بول سکتا۔ آج پورا ملک سوگوار ہے۔ ہر صاحب دل کا ذہن منتشر اور دل بوجھل اور مغموم ہے۔
زینب کے سانحے کے بعد تواتر سے اس قسم کے روح کو لرزا دینے والے واقعات بیان کیے جارہے ہیں۔ الیکٹرونک میڈیا کی بریکنگ نیوز اور اخبارات کے صفحہ اول پر۔ ان کی تفصیلات بتانا ہمارے بس سے باہر ہے۔ مطالبات کی بھر مار ہے اور ان میں مقبول ترین مطالبہ مجرم کو فوری طور پر سر عام پھانسی دینا ہے۔ تاکہ اس قماش کے لوگوں کو عبرت حاصل ہو۔ لوگوں کے مطالبات اس بات کی علامت ہیں کہ ان کا اس سسٹم سے یقین اٹھ گیا ہے۔ اس سسٹم نے ہمیں ایسی عدلیہ دی ہے جو طاقت ور کے لیے مکڑی کا جالا ہے۔ وہ اسے روندتا ہوا گزر جاتا ہے اور کمزور اس بری طرح پھنس جاتا ہے کہ دس دس پندرہ پندرہ برس جیل کاٹنے کے بعد اس کی معافی کا فیصلہ ہوتا ہے۔ تب اسے قید سے رہائی ملتی ہے اگر وہ تب تک زندگی کی قید سے رہا نہ ہوگیا ہو۔ عدلیہ بحالی تحریک ایک امید تھی پاکستان میں نظام عدل کی بہتری اور بحالی کی۔ لیکن اس کے نتیجے میں نظام عدل درست خطوط پر استوار ہونے کے بجائے مزید خرابیوں میں مبتلا ہوگیا ہے۔ جج متکبر اور وکلا بدمعاش بن گئے ہیں۔ آج ہمارے جج ہر شعبہ میں سینگ پھنساتے نظر آتے ہیں لیکن انہیں اگر فرصت نہیں ہے تو اس بے محابا کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمے کی جو ہماری عدلیہ میں نچلی سطح سے لے کر اوپر تک اس بری طرح سرایت کر گئی ہے کہ بغیر رشوت کسی کام کا ہونا ناممکنات کے زمرے میں آتا ہے۔ ہماری عدلیہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وکیل کرنے کی ضرورت نہیں جج کرلو۔ کیا محترم جج صاحبان نے اس تاثر کے ازالے کی کوئی کوشش کی۔ عزت مآب جج صاحبان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جج نہیں بولتے ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ وطن عزیز میں صورت حال یہ ہے کہ جج بول رہے ہیں اور بے محابا بول رہے ہیں لیکن ان کے فیصلے عالم سکوت میں ہیں۔ اگر نام پڑھے بغیر اخبارات کا مطالعہ کیا جائے تو فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کون سا بیان اہل سیاست کا ہے اور کون سا عدلیہ کے محترم جج صاحبان کا۔ اخبارات کی سرخی بننے اور ٹی وی ٹاک شوز کا موضوع بننے کا مزہ ہی الگ ہے۔ ایسے میں اگر زینب کا قاتل پکڑا بھی گیا تو اس نظام عدل سے کسی کو توقع نہیں کہ وہ سزابھی پاسکے گا۔ یہ نظام قرآن وسنت پر مبنی نہیں ہے بلکہ برطانوی راج کے چھوڑے ہوئے کفریہ اور ظالمانہ قوانین پر مشتمل ہے۔
اگر مجرم بااثر یا اہل ثروت ہوا تو کس میں اتنی جرات ہے کہ اسے سزا دے سکے۔ مدعا علیہان کو اتنا تھکا دیا جائے گا اتنا خوف زدہ کردیا جائے گا بالآخر وہ معاف کرنے پر راضی ہو جائیں گے۔ شاہ زیب قتل کیس کا فیصلہ آپ کے سامنے ہے۔ شاہ رخ جتوئی کیسے سینہ تانے، وکٹری کا نشان بناتا پو لیس موبائل سے برآمد ہوتا تھا اور بالآخر آج رہائی کی عزت کا مستحق ہے۔ زینب کے قاتل کو بھی اگر اس نظام عدل کے سپرد کردیا گیا تو اس کا فیصلہ بھی شاہ رخ جتوئی کے فیصلے سے مختلف نہیں ہوگا۔ اور زینب کی روح کوڑے دان پر پڑے اپنے جسم کے گرد چکر لگاتی برسوں یہی دہائی دیتی رہے گی ’’میرانام زینب ہے۔ مجھے کیوں قتل کیا گیا؟ مجھے انصاف کون دلائے گا؟‘‘