ہندوستان میں ہندوتا اور صہیونیت کا خطرناک ملاپ 

545

گزشتہ سال جولائی میں جب ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی اسرائیل کے دورے پر یروشلم گئے تھے تو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے نریندر مودی سے اپنی محبت جتانے کے لیے، اسرائیل کے ایک پھول کا نام مودی کے نام پر رکھا تھا۔ اب جب نیتن یاہو، ہندوستان کے دورے پر آئے ہیں تو نریندر مودی نے دلی کے تاریخی تین مورتی چوک کا نام بدل کر اسرائیل کے دوسرے بڑے شہر حیفا کے نام پر رکھ دیا۔ تین مورتی چوک، تین مورتی بھون کے سامنے ہے۔ یہ تاریخی کوٹھی آزادی سے پہلے کمانڈر انچیف کی قیام گاہ تھی اوراس کے بعد سترہ سال تک پنڈت نہرو نے یہاں سے وزیر اعظم کی حیثیت سے حکمرانی کی، اب یہاں ان کا میوزیم ہے۔
نریندر مودی نے ایک حد تک نیتن یاہو کو مات دے دی ہے کیوں کہ نیتن یاہو نے تو صرف ایک پھول کا نام مودی سے موسوم کیا تھا لیکن مودی نے ایک شاندار تقریب میں ایک تاریخی چوک کا نام بدل کر اسرائیل کے شہر حیفا کے نام پر تین مورتی حیفا چوک رکھ دیا ہے۔ اس اقدام کے پیچھے نریندر مودی کی عیاری چھپی ہوئی ہے۔ ایک طرف اسرائیل کی خوشنودی حاصل کرنا اس کا مقصود ہے اور دوسری جانب مسلمانوں کے خلاف دل میں بھڑکتی نفرت کی بھڑاس نکالنا ہے۔
تین مورتی چوک کے نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہاں ایک یادگار پر تین فوجیوں کی مورتیاں ہیں۔ یہ فوجی امپیریل فوج میں شامل تین رجواڑوں، حیدرآباد دکن، میسور اور جودھپور کے گھڑ سوار دستوں کے فوجی ہیں جو پہلی عالم گیر جنگ میں مشرق وسطیٰ کے محاذ پر لڑتے ہوئے ہلاک ہوئے تھے۔ تینوں رجواڑوں کے یہ سوار، مشرق وسطیٰ میں سلطنت عثمانیہ کے خلاف انگریزوں کی جنگ میں شامل تھے۔ ان ہندوستانی فوجیوں نے ستمبر 1918 میں فلسطین کے ساحلی شہر حیفا کو سلطنت عثمانیہ کی فوجوں سے آزاد کرایا تھا۔ حیفا کی لڑائی میں جودھپور سوار دستہ کے کمانڈر میجر دلپت سنگھ شیخاوت اور 44 سوار مارے گئے تھے اسی لڑائی میں میجر شیخاوت کو ملٹری کراس کا ایوارڈ ملا تھا۔
تین مورتی یادگار کے نیچے اردو میں عبارت کندہ ہے۔ ’’امپیریل سروس کیولیر بریگیڈ کے سوار جنہوں نے جنگ عظیم میں 1913 سے 1919 تک جزیرہ نما فلسطین اور سوریا میں جانیں نثار کیں۔ اس بریگیڈ میں حیدر آباد دکن، میسور اور جودھپور کے سوار بھرتی تھے۔‘‘ یادگار میں جن مقامات کے نام دیے گئے ہیں ان میں نہر سوئز، یروشلم، حیفا، دمشق اور حلب صاف پڑھے جا سکتے ہیں۔ شکر ہے کہ مودی سرکار کے بر سر اقتدار آنے کے بعد اردو کی اس عبارت کو مٹا کر اس پر ہندی مسلط نہیں کی گئی ہے۔
یہ دلچسپ بات ہے کہ ہندوستان کے ان فوجیوں نے جن کے نام پر تین مورتی کو حیفا کا نام دیا گیا ہے، صرف حیفا ہی میں جنگ نہیں لڑی تھی بلکہ انہوں نے دمشق اور حلب میں بھی جنگ لڑی تھی، لیکن اہم پہلو یہ ہے کہ ان کی صرف حیفا کی لڑائی کی بناء پر تین مورتی چوک کا نام بدلا گیا ہے۔ مقصد واضح ہے کہ ہندوستان کے عوام کے دل خوش کیے جائیں کہ ان ہندوستانی فوجیوں نے سلطنت عثمانیہ کی فوجوں کو حیفا میں شکست دے کر ایسا کارنامہ انجام دیا تھا جس کی یاد تین مورتی کا نام حیفا رکھ کر امر کر دی گئی ہے۔
ہندوستان کے موجودہ حکمرانوں کو ایسا معلوم ہوتا ہے 1960 کا وہ واقعہ یاد نہیں یا اسے یکسر بھلا دیا ہے، جب جواہر لعل نہرو، لندن میں دولت مشترکہ کے وزارئے اعظم کی کانفرنس میں شرکت کے بعد غزہ میں اسرائیل اور مصر کے درمیاں جنگ بندی سرحد پر تعینات اقوام متحدہ کی ہنگامی فوج میں شامل ہندوستانی فوجیوں سے ملنے غزہ گئے تھے، فوجیوں سے ملنے کے بعد نہرو اقوام متحدہ کے چارٹرڈ طیارہ میں بیروت کے لیے روانہ ہوئے، جیسے ہی نہرو کے طیارہ نے اڑان بھری، اسرائیل کے دو جٹ طیاروں نے اس کا تعاقب کیا اور اسے زبردستی اسرائیل میں اتارنے کی کوشش کی لیکن اقوام متحدہ کے طیارے کے ہوا باز نے بڑی مہارت سے یہ کوشش ناکام بنادی اور بحفاظت نہرو کو بیروت پہنچا دیا۔ اس وقت تو نہرو نے کچھ نہیں کہا لیکن دلی واپسی پر انہوں نے لوک سبھا میں اس واقعہ کا انکشاف کیا اور اسرائیل کی اس کارروائی کو بلا اشتعال اقدام قرار دیا اور اس کی مذمت کی۔ اس واقعہ کو اٹھاون سال گزر چکے ہیں، اسرائیل نے ابھی تک اس واقعہ پر ہندوستان سے معذرت نہیں کی ہے۔ اسی اسرائیل کے وزیر اعظم کا اب ہندوستان کی دھرتی پر زبردست سواگت کیا جارہا ہے۔
اسرائیل کے بارے میں جواہر لعل نہرو کی پالیسی پر کئی مصلحتیں حاوی تھیں۔ مشرق وسطیٰ کے عرب ملکوں اور خاص طور پر غیر وابستگی کے حامل ملکوں سے نظریاتی تعلق، اسرائیل پر امریکا کی گرفت اور ہندوستان کے مسلمانوں کے جذبات کا بھی احساس تھا اسی لیے انہوں نے 1950 تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تھا اور بالآخر جب رسمی طور پر اسرائیل کو تسلیم کیا تھا اور جواز یہ پیش کیا تھا کہ اسرائیل ایک حقیقت بن چکا ہے لیکن انہوں نے ہمیشہ اسرائیل سے دوری رکھی۔ یہ صحیح ہے کہ کانگریس کی حکومت کی خارجہ پالیسی کی سمت بدلی اور 1992 میں امریکا اور اقتصادی مسائل کے دباؤ میں اسرائیل سے بھر پور سفارتی تعلقات استوار کیے اور اسی بنیاد پر ہندوستان نے 1996
میں امریکا سے اسلحہ کے حصول اور دفاعی امور میں تعاون کے سلسلے میں کامیابی حاصل کی۔ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ بھر پور سفارتی تعلقات کی وجہ سے امریکا، ہندوستان کے ساتھ جوہری تعاون کا سمجھوتا کرنے پر راضی ہوا ہے۔ اسرائیل سے ہندوستان کے تجارتی تعلقات بڑی تیزی سے بڑھے ہیں اور اب اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان 5ارب ڈالر سے زیادہ کی تجارت ہے اسرائیلی اسلحہ کی، ہندوستان کو برآمد اس کے علاوہ ہے۔ نیتن یاہو کے دورے کا ایک اہم مقصد دونوں ملکوں میں تجارتی تعلقات کو بھر پور طریقہ سے فروغ دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیتن یاہو کے ساتھ 130ممتاز بزنس مین ہندوستان آئے ہیں۔
ہندوستان کے مبصرین کی رائے ہے کہ نریندر مودی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد جس تیزی سے ہندوستان اور اسرائیل کے تعلقات میں ایک نیا موڑ آیا ہے اس کے پس پشت اقتصادی مفادات کے ساتھ نظریاتی ملاپ بھی اہم ہے اور یہ آر ایس ایس کے ہندتوا کے نظریہ اور صہیونی نظریہ کا اتحاد ہے۔ اس کا علی اعلان اظہار نریندر مودی نے گزشتہ سال جولائی میں اسرائیل کے دورہ میں کیا تھا جب انہو ں نے خاص طور پر یروشلم میں صہیونی تحریک کے بانی تھیوڈور ہرزل کی قبر پرحاضری دی تھی اور فاشسٹ نظریہ کے داعی ہرزل سے نہایت جذباتی انداز سے عقیدت کا اظہارکیا تھا۔ یہ اظہارِ عقیدت صہیونی نظریہ سے ہندتوا کے پرچارک کی قربت کو آشکار کرتا تھا۔ اور اب نیتن یاہو کا جس والہانہ انداز سے ہندوستان میں خیر مقدم کیا جارہا ہے اس کے بعد ہندتوا اور صہیونی ملاپ پر کوئی شک باقی نہیں رہتا اور بلاشبہ نیتن یاہو کے اس چھ روزہ دورے میں افغانستان، پاکستان اور جنوبی ایشیاء کے بارے میں صدر ٹرمپ کی حکمت عملی کی روشنی میں ہندوستان اور اسرائیل کے رہنماؤں کے درمیان دور رس منصوبے تیار کیے جائیں گے جو پاکستان کے لیے سنگین خطرہ کا باعث ثابت ہوں گے۔