کراچی (رپورٹ: محمد انور) بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محکمہ فائر بریگیڈ کے فائرمین سمیت 100 ملازمین غیر حاضر ہیں جبکہ 40 فائر ٹینڈرز کی پانی کی موٹرز اور جنریٹر غائب کیے جاچکے ہیں۔ یہ انکشافات میئر کراچی کے حکم پر فائربریگیڈ ڈپارٹمنٹ کی صورتحال جانچنے کے لیے کرائی جانے والی تحقیقات
سے ہوا۔ کے ایم سی کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ میئر وسیم اختر نے یہ تحقیقات روزنامہ جسارت کراچی میں مختلف ایام میں شائع کی گئی تحقیقاتی رپورٹس پر کرائی تھی تاکہ درست صورتحال کا پتا لگایا جاسکے۔ تحقیقات چیئرمین فائر بریگیڈ کمیٹی امان اللہ آفریدی کی نگرانی میں قائم کمیٹی نے کی، اس مقصد کے لیے تمام فائر اسٹیشنوں ، متعلقہ گاڑیوں اور ریکارڈ کا بھی معائنہ کیا گیا۔ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق فائر ٹینڈرز سمیت 94 گاڑیوں میں سے متعدد ناکارہ ظاہر کرکے گلشن اقبال میں سٹی وارڈن کے دفتر اور بلدیہ فائراسٹیشن کے گراؤنڈ میں کھڑی کردیں گئیں جن کا کسی ریکارڈ میں ذکر تک نہیں ہے۔ تحقیقات سے کمیٹی کو یہ بھی معلوم ہوا کہ تمام مرکزی فائر اسٹیشن سمیت 22 فائر اسٹیشنوں سے فائرمین ، ٹیلی فون آپریٹرز اور دیگر عملے کے 100 افراد مسلسل غیر حاضر ہیں جن کی کمیٹی نے نشاندہی بھی کردی ہے۔ کمیٹی نے رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ فائر بریگیڈ کی گاڑیوں اور فائر ٹینڈرز کی مرمت و دیکھ بھال کا ٹھیکا جس فرم ایف آر سی کے پاس ہے اس نے محکمے میں ایک مافیا بنایا ہوا ہے جس کی وجہ سے کے ایم سی کو سالانہ کروڑوں روپے کا نقصان بھی ہورہا ہے۔ اس فرم کو کمیٹی نے ادائیگیاں روکنے کی سفارش کی تھی لیکن اس کے باوجود بلوں کی ادائیگی کی جارہی ہے اور رواں سال بھی ایک کروڑ 35 لاکھ روپے کے فنڈز جاری کیے جاچکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 4 اسنارکل میں سے 2 تاحال ناکارہ ہیں حالانکہ ان اسنارکل کو درست کرنے کے لیے علیحدہ سے ایک کروڑ 50 لاکھ روپے جاری کیے گئے تھے۔ تحقیقاتی رپورٹ کی مزید تفصیلات آئندہ منظر عام پر لائی جائیں گی۔