ٹویٹ کے زخموں پر ٹیلی فون کا مرہم

461

عاف بہار
پاکستان اور امریکا کے درمیان جس تعلق کو سات عشروں سے دوستی کا نام دیا جارہا تھا وقت بدلتے ہی اس کی اصل حقیقت عیاں ہوگئی ہے۔ ثابت یہ ہو رہا ہے کہ دونوں کے درمیان تعلق کے لیے دوستی کا عنوان ہرگز مناسب نہیں تھا۔ کچی ڈور کی مانند یہ ’’امداد وتعاون‘‘ کا معاملہ تھا۔ تھوڑا سا اور حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تو اسے آجر اور اجیر کا تعلق بھی کہا جا سکتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی حالیہ لہر کے دوران ہی امریکا نے پاکستان کی سیکورٹی امداد معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان ہیدر نورٹ نے امداد کی معطلی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے ساتھ ہی پاکستان کو فوجی ساز وسامان کی فراہمی بھی معطل کی گئی ہے۔ اس کے جواب میں وزیر دفاع خرم دستگیر نے اعلان کیا ہے کہ امریکا سے انٹیلی جنس اور دفاعی تعاون معطل کر دیا ہے۔ یوں امداد کی معطلی کے جواب میں تعاون معطل کر دیا۔ ماہرین اور آزاد مبصرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امریکی امداد سے پاکستان پر کچھ زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ اگر حکومت پاکستان سلیقہ مندی اور منصوبہ بندی سے کام لے تو ان پابندیوں کو بے اثر بنا سکتی ہے مگر امداد کے بدلے پاکستان کا تعاون حقیقت میں ختم ہوجائے تو افغانستان میں امریکا کی شہ رگ پر طالبان کا پاؤں آسکتا ہے۔ امریکا اور ناٹو کے لیے اب بھی رسد پاکستان کی زمین اور فضاء سے جاری ہے۔ بدترین کشیدگی کے باوجود پاکستان نے یہ ’’تعاون‘‘ معطل نہیں کیا۔ گویا کہ ناٹو اور امریکی فوج کی سانسیں پاکستان ہی کی بدولت اب بھی بحال ہیں۔
نیویارک ٹائمز نے ڈونلڈ ٹرمپ کو متنبہ کیا تھا کہ ناٹو اور امریکی فوج کی سپلائی پر پاکستان کی طرف سے پابندی عائد ہونے کی صورت میں امریکا افغانستان میں مزید مشکلات کا شکار ہو جائے گا۔ پاکستان تعاون کی اس معطلی کا یہ آخری کارڈ ابھی تک بچائے ہوئے ہے اور شاید حالات بدلنے کی اُمید پر بھی یہ کارڈ سنبھال کر رکھا گیا ہے۔ امریکی امداد کی معطلی پاکستان کے خودانحصاری کی راہ پر جانے کا بہترین ذریعہ اور لمحہ ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ پاکستان کے منصوبہ ساز اس موقع کے فائدہ اُٹھا کر کشکول پھینک دینے کی ٹھوس منصوبہ بندی کریں مگر جنہیں امداد کی چاٹ لگ چکی ہے ان سے کسی قلندرانہ فیصلے کی توقع عبث ہے۔ ان کی خواہش ہوگی کہ امریکا کے ساتھ حقیقی فاصلہ پیدا ہونے کے بجائے چوہے بلی کا یہ کھیل یونہی جاری رہے۔ پاکستان امریکی امداد کے بغیر زندہ رہنا با آسانی سیکھ سکتا ہے مگر افغانستان میں پھنسے ہوئے امریکا کے لیے پاکستان کی طرف سے ہر قسم کے تعاون کی معطلی کس قدر نقصان کا باعث ہوگی اس کا خلاصہ بہت ادبی انداز میں اس ساری صورت حال کے واقف حال رچرڈ اولسن نے اپنے ایک مضمون میں بیان کیا ہے۔
تین سال تک پاکستان میں امریکا کے سفیر اور ایک سال امریکی نمائندہ برائے پاکستان وافغانستان رہنے والے رچرڈ اولسن نے ’’ہاؤ ٹو انگیج ود پاکستان‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے مضمون میں امریکی عوام کو افغان صورت حال پر پاکستان کی اہمیت بتاتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے تعاون کے بغیر امریکی فوج کی مثال ساحل پر پڑی وہیل مچھلی کی مانند ہے۔ اس کے لیے اردو میں ’’ماہیِ بے آب‘‘ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے۔ ماہیِ بے آب کو پانی میسر نہ آئے تو آکسیجن سے محروم ہوکر تڑپ تڑپ کا مرنا اس کا مقدر ٹھیرتا ہے۔ اس طرح رچرڈ اولسن نے پاکستان کے تعاون کو امریکا کے لیے آکسیجن کی مانند قراردیا ہے۔ رچرڈ اولسن نے یہ نہیں کہا کہ امریکا کو پاکستان کے ساتھ اپنے اختلافات کو بتدریج کم یا محدود کرنا چاہیے بلکہ ان کا اعتراض یہ تھا کہ پاکستان کو ٹویٹر کے ذریعے پیغام دینا سود مند نہیں ہوگا۔ اس سے مستقبل میں کسی کامیابی کی توقع نہیں۔ اس کی جگہ پرائیویٹ طور پر بات کرنے کا روایتی طریقہ اختیار کیے رکھنا ہی اچھا ہے۔ اس طرح رچرڈ اولسن کے بیان کردہ نسخے کے مطابق بھی پاک امریکا اختلافات کی خلیج کم کرنے کے بجائے دباؤ کا انداز تبدیل کرنا ہی مسئلے کا حل ہے۔
امریکیوں نے جم کر پاکستان کو چھڑی دکھائی۔ پاکستان کو خطرناک نتائج پر مبنی دھمکی آمیز اور امداد کے جعلی اعداد وشمار پر مبنی تضحیک آمیز ٹویٹ کے ذریعے امریکا نے چھری لہرا لہرا کر پاکستان کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کی جب کام نہ چلا تو گاجر کا نسخہ آزمانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ دوسرے لفظوں میں ٹویٹر سے لگے زخم ٹیلی فون کے ذریعے مندمل کرنے کا خیال آگیا۔ آجر اور اجیر، امداد وتعاون، گاجر اور چھڑی کی اس کہانی میں نیا موڑ اس وقت آیا جب امریکا کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو ٹیلی فون کرکے یہ باور کرانے کی کوشش کی امریکا پاکستان کے اندر کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اس کے جواب میں جنرل باجوہ کی جو گفتگو جاری ہوئی اس سے پاکستان کا اعتماد جھلک رہا ہے۔ اس ٹیلی فونک رابطے کو تعلقات کی برف پگھلانے کی کوشش تو کہا جا سکتا ہے مگر دونوں ملکوں میں جو خلیج پیدا ہوچکی ہے یہ اسے حقیقی طور پر پاٹنے میں کم ہی معاون ہو سکتی ہے۔ جنرل باجوہ نے امریکیوں سے کہا ہے پاکستان کو امریکی امداد کی ضرورت نہیں اور یہ کہ پاکستان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ لامحالہ ان کا اشارہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مہم جوئی کے آغاز کے وقت پاکستان کو دھوکے سے اس میں گھسیٹنے کی جانب ہے۔
امریکا نے دہشت گردی کے وقت صرف القاعدہ اور طالبان کا نام لیا مگر بعد میں یہ اصطلاح پھیلتے پھیلتے کشمیر تک پہنچ گئی اب اسامہ بن لادن کی فہرست میں سید صلاح الدین کا نام بھی شامل کیا جاچکا ہے۔ امریکا نے اسے اپنے تحفظ اور بچاؤ کی جنگ کہہ کر پاکستان کو ہلہ شیری دی مگر پاکستان اس میں کود گیا تو بتایا گیا کہ یہ امریکا اور بھارت کے تحفظ کی جنگ ہے۔ یہاں پاکستان نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والی مشکل میں پھنس گیا۔ پاکستان ایک حد سے آگے اس راہ پر چل تو پڑا مگر ایک مقام ایسا آیا جب پاکستان اس جنگ سے اپنے مقاصد اور مفاد کے تحت ہاتھ کھینچتا چلا گیا۔ چند دن پہلے ہی ایک امریکی گلہ گزار تھا کہ پاکستان نے صرف ان دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی کی ہے جو اس کے لیے خطرہ تھے۔ اصل مسئلہ پاکستان اور امریکا کے تیزی سے بدلتے ہوئے دفاعی تصورات ہیں جو دوقطعی متضاد سمتوں کی طرف رواں دواں ہیں۔ وجہ اختلاف یہ ہے کہ امریکا نے ایشیا میں بھارت کو اپنا ’’اسرائیل‘‘ بنالیا ہے ایسے میں پاکستان بھی اپنا نیا ’’امریکا‘‘ چننے کا حق استعمال کررہا ہے۔