یہ آپ ہی کی جمہوریت ہے

358

میاں نواز شریف نے سوال کیا ہے کہ 500 ووٹ لینے والے کو وزیراعلیٰ کس نے بنایا، سازش بے نقاب کروں گا۔ اکثریتی پارٹی کی حکومت ختم کرنے کا عمل عوام سے گھناؤنا مذاق تھا۔ بے وفائی کرنے والوں کو قوم معاف نہیں کرے گی۔ بلوچستان میں جو کچھ ہورہاہے تکنیکی یا قانونی اعتبار سے تو جمہوریت ہی کہا جاسکتا ہے لیکن کیا وفاق میں مسلم لیگ کے تمام فیصلے پنجاب میں اس کی بندربانٹ اور سینیٹ انتخابات اور سیٹوں کے حوالے سے لین دین بہت شفاف رہی ہے۔ میاں نواز شریف کے لیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ جب وہ وزیراعظم تھے ان کی پارٹی نے اکثریت میں ہونے کے باوجود 6 نشستوں والوں کے لیے 6 وزارتیں اور مشاورتیں اور بعد میں ایک ادارے کی ڈپٹی چیئرمین شپ کس کے کہنے پر دی تھی جب وہ یہ سوال کررہے ہیں کہ 500 ووٹ والے کو وزیراعلیٰ کس نے بنایا تو ان کے لیے یہی جواب ہے کہ جس نے 6 نشستوں والی پارٹی کو 6 وزیر مشیر اور بعد میں سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین کا منصب دیا۔ ہمیں اس سے اختلاف نہیں وہ جس کو چاہیں وزیر مشیر بنائیں اور جس کو چاہیں چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین بنائیں لیکن اس کو سازش اور ملک دشمنی تو نہ کہیں۔ ان کے آج کل کے وزیر داخلہ احسن اقبال نے یہی کہاہے کہ بلوچستان میں تحریک عدم اعتماد لانے والوں نے ملک دشمنوں کا کھیل یا کام آسان کردیا۔ یہ بات اب تو عام ہوگئی ہے کہ حکومت کسی کی بھی ہو جب اس کے خلاف کوئی اقدام ہوتا ہے تو اسے یہ حکومت مخالف نہیں لگتا بلکہ اسے ملک دشمن اقدام قرار دے دیاجاتا ہے۔ جب مسلم لیگ ن نے پیپلزپارٹی کی حکومت بنتے ہی ٹرین مارچ کیا تھا تو کیا وہ ملک دشمنوں کا کام آسان کرنے کا اقدام تھا یا جمہوریت دشمنی تھی۔ یہ تحریک عدم اعتماد کب سے ملک دشمنوں کا کام آسان کرنے والا قدم ہوگئی۔ میاں صاحب! جس قسم کی جمہوریت مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی والے اس ملک میں چلاتے رہے ہیں یہ اسی کا شاخسانہ ہے۔ میاں نواز شریف بھول گئے ہوں گے جب وہ پاکستان قومی اتحاد کے صدر تھے تو قومی اتحاد کے سیکرٹری جنرل کو چھوڑ کر 90 پر الطاف حسین کے گھر حاضری دے کر اسلام آباد چلے جاتے تھے۔ ایم کیو ایم کو کراچی میں ہر طرح کی دھاندلی کرکے انتخابات جیتنے کی آزادی دے کر اسے اتحادی بنا بیٹھے اس کے بغیر بھی اتحاد کی حکومت بن سکتی تھی لیکن ملک کے غداروں کو ساتھ ملایا۔ آج خود ہی انہیں غدار کہتے ہیں، اس وقت اسے جمہوریت کہتے تھے۔ پیپلزپارٹی نے بھی ایسے ہی فیصلے کیے آج مسلم لیگ ن کے سامنے یہ فیصلے کسی اور کی وجہ سے نہیں آرہے ہیں یہ آپ ہی کی جمہوریت ہے۔ بدھ کے اخبارات میں خبر ہے کہ وزیراعظم نے فرمایا ہے کہ پارٹی نے کہا تو اسمبلی تحلیل کردوں گا تو کیا ان سے کوئی اور کہہ رہا ہے کہ اسمبلی توڑ دیں۔ حکومت کو الیکشن کے قریب دھرنوں پر اعتراض ہے لیکن وزیراعظم اسمبلی توڑنے کی بات کرکے یہ بتارہے ہیں کہ معاملہ یہی ہے۔ ابھی تو وقت پر انتخابات کے بارے میں شبہات پھیل رہے تھے لیکن اس قسم کی گفتگو اور سازشوں کے الزامات اور بے نقاب کرنے کے دعوؤں کے بعد تو انتخابات وقت پر کرانے کے بجائے قبل از وقت ہی کرانے ضروری ہوتے نظر آرہے ہیں۔ شاید اسی حوالے سے وزیراعظم نے کسی کو پیغام دیا ہے کہ اسمبلیاں آپ کے کہنے پر نہیں پارٹی کے کہنے پر توڑوں گا۔ لیکن بات یہ ہے کہ جب وقت آئے اقتدار کی جان چھوڑیں میدان کھولیں اور انتخابات کے دنگل میں اتر جائیں۔ میاں نواز شریف وزیر داخلہ اور وزیراعظم کے لیے مشورہ ہے کہ سازش کے گرداب سے نکلیں اپنی پارٹی کو سنبھالیں اپنے لوگوں کو غدار، منافق ، جھوٹا اور خوشامدی کے القابات دینے والوں کو روکیں۔ جس قسم کی جمہوریت کی آبیاری مسلم لیگ اور پی پی نے کی ہے اس کے نتائج ایسے ہی آئیں گے۔جو لوگ آج دھرنے دے رہے ہیں اگر کل ان کی حکومت ہوگی تو آج کے حکمران اس وقت دھرنے دے رہے ہوں گے۔ یہ کھیل اس وقت تک اسی طرح چلتا رہے گا جب تک عوام ان کی باریاں توڑیں گے نہیں اور باریاں توڑنے سے قبل انہیں آنکھیں کھول کر دل و دماغ کو آزاد کرکے فیصلہ کرنا ہوگا۔ ورنہ پھر کوئی غلطی کر بیٹھے تو کئی برس اور انتظار کرنا پڑے گا۔اس وقت حکمران لیگ کا اہم مسئلہ اپنی پگڑی سنبھالنا اور کارکنوں کو مجتمع رکھنا ہے۔ مال روڈ لاہور پر سیاسی جماعتوں کے جلسے، دھرنوں کی دھمکیاں وغیرہ حکومت کے لیے اتنی خطرناک نہیں جتنے لیگی رہنماؤں کے بڑھتے ہوئے باہمی اختلافات۔ ن لیگ میں چودھری نثار علی خان کا اہم مقام رہا ہے اور پرویز رشید بھی پرویز مشرف کی بغاوت میں نواز شریف کا ساتھ دینے پر کڑی سزا بھگت چکے ہیں۔ ڈان لیکس کے مسئلے پر ان کی قربانی بھی دی گئی ہے۔ لیکن اب یہ دونوں مخالفین کے بجائے ایک دوسرے کا مقابلہ کررہے ہیں۔ بلوچستان میں جو کچھ بھی ہوا اس میں نواز شریف اور ن لیگ کی کوتاہی اور غفلت کا بڑا حصہ ہے۔