وزارتِ امور کشمیر کے خاتمے کا مطالبہ

471

عارف بہار

آزادکشمیر کے سابق وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود چودھری نے وزارت امور کشمیر کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان سے آنے والے لینٹ افسر چیف سیکرٹری، سیکرٹری مالیات اکاؤٹننٹ جنرل اور آئی جی پی قبول نہیں۔ چیف الیکشن کمشنر سمیت ان عہدوں کے تقرر کا اختیار آزادکشمیر حکومت کے پاس ہونا چاہیے۔
وزارت امور کشمیر کے خاتمے کا مطالبہ کوئی نیا نہیں بلکہ یہ آزادکشمیر کی موجودہ انتظامی اور جغرافیائی ہیئت کے ساتھ ہی شروع ہوا ہے۔ آزادکشمیر کے سیاسی اور آئینی ارتقا کے مختلف مراحل ومدارج میں مختلف عوامی حلقے وزرات امور کشمیر کو کشمیری سیاست دانوں کو لڑانے کی ذمے دار قرار دے کر اسے ختم کرنے کا مطالبہ دہراتے چلے آئے ہیں۔ یہ ایک دلخراش تضاد ہے کہ سیاست دان وزارت امور کشمیر کی محلاتی سازش کا شکار ہوا اس نے وزرات ختم کرنے کی بات کی اور جو سیاست دان وزارت کا منظورِ نظر قرار پاکر اقتدار کی منزل تک پہنچا اسے وزارت امور کشمیر معاون اور مربی محسوس ہوتی رہی۔ آزادکشمیر کی سیاسی قیادت وزارت امور کشمیر کے خاتمے کے معاملے میں مستقل اور اصولی موقف اختیار نہ کر سکی۔ یوں بھی وزارت امور کشمیر مطالبات اور نعروں سے ختم ہونی تھی نہ ہوئی اس وزارت کو ختم کرنے یا شکایات دور کرنے کے لیے وفاق کی حکمران اور سیاسی جماعتوں کو قائل کرنا ضروری ہے۔ آزادکشمیر کے موجودہ وزیر اعظم راجا فاروق حیدر خان بھی وزارت امور کشمیر سے نالاں اور ناراض رہے ہیں۔ اس وزارت پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح سازشی رویہ اپنانے کا الزام لگتا رہا ہے۔ وقتی مصلحت اور مجبوری کی بات اور مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وزارت سے کوئی کشمیری دلی طور پر خوش نہیں رہا۔ حکومت پاکستان نے بھی آزادکشمیر سے متعلق بہت سے معاملات اس وزارت کو ٹھیکے پر دے کر اسلام آبا د اور مظفر آباد کے درمیان تعلقات میں نفرت کے ’’ٹائم بم‘‘ رکھ چھوڑے ہیں۔ وزارت امور کشمیر کے بجائے کشمیریوں کے ساتھ تعلق کو برقرار اور بحال رکھنے کا زیادہ باوقار طریقہ آزاد جموں وکشمیر کونسل کو سینیٹ کی طرز پر ایک بالادست ادارہ بنانا تھا۔ کشمیر کونسل وزرات امور کشمیر کا ذیلی ادارہ ہے اس وقت کشمیر کونسل صرف ترقیاتی اسکیموں اور آزادکشمیر کے عوام کے ٹیکسوں کی خورد برد میں وزارت امور کشمیر کی معاونت کرنے والا ادارہ بن کر رہ گیا ہے۔ کشمیر کونسل کے منتخب ارکان بھی اسکیموں کی بندر بانٹ کے علاوہ صرف ایک کام کرتے ہیں وہ ہے ہر سال بجٹ کی منظوری کی رسمی کارروائی۔
آزادکشمیر سے متعلق کئی امور غیر ضروری طور پر وزارت کے کھاتے میں ڈال دیے گئے ہیں۔ اس وقت وزارت امورکشمیر کے ذیلی ادارے کشمیر کونسل کے پاس آزادکشمیر سے متعلق باون امور پر قانون سازی اور فیصلہ سازی کا اختیار ہے۔ یہ باون امور ہی کسی حکومت اور علاقے کا نظم نسق چلانے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ ان باون معاملات کے بعد آزادکشمیر کے حکمرانوں کے پاس گاڑیاں دوڑانے اور صوابدیدی فنڈز خرچ کرنے اور کچھ ترقیاتی سرگرمیوں کا محدود سا اختیار رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے وزیر امور کشمیر نواب مشتاق گورمانی سے موجود وزیر برجیس طاہر تک بہت سے مسائل اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ آزادکشمیر کا موجودہ انتظامی ڈھانچہ بھی اب ستر برس کا سفر طے کر چکا ہے۔ اسلام آباد اور مظفر آباد کے آئینی اور انتظامی رشتوں کو بھی اتنا ہی عرصہ ہوگیا ہے۔ اب دونوں میں باہمی اعتماد اور بھروسے کا گراف خاصا بلند ہوجانا چاہیے۔ آزادکشمیر سے تعلق رکھنے والے افسر وفاق میں بطریق احسن اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں جس کا مطلب ہے یہ کہ آزادکشمیر کے عوام بھی صلاحیتوں میں ملک کے دوسرے علاقوں سے کم نہیں مگر ضرورت ان پر اعتماد کی ہے۔ یہ ایک حساس معاملہ ہے جسے باہم افہام وتفہیم سے حل کیا جا سکتا ہے اس کا بہتر انداز وہی ہے جو آزادکشمیر کی پچھلی اسمبلی نے آئینی ترامیم کے ایک مسودے کی تیاری کی صورت اپنایا تھا۔ موجودہ وزیر اعظم اور اس وقت کے قائد حزب اختلاف راجا فاروق حیدر خان نے اس مسودے کی تیاری میں خاصی محنت کی تھی۔ یہ مسودہ اسلام آباد میں وزارت امور کشمیر کی راہداریوں میں کہیں کھو گیا ہے۔ آزادکشمیر کی وفاقی جماعتوں سے قرابت دار ی رکھنے والی جماعتوں مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کو بیانات اور مطالبات کے ساتھ ساتھ اپنی مرکزی قیادتوں کو اس ضرورت کا احساس دلاتے رہنا چاہیے۔