جد ید طبی تحقیق

323

خبردار! ناخن چبانے کی عادت
خطرناک ہو سکتی ہے

تحقیق کے مطابق اس عادت میں مبتلا ہونا اس بات کی بھی نشانی ہے کہ وہ شخص کمالیت پسند ہے۔ اس تحقیق کے دوران 48 رضاکاروں کا جائزہ لیا گیا جن میں سے 50 فیصد ناخن چبانے کے عادی تھے۔نتائج سے معلوم ہوا کہ اس عادت کے شکار افراد ادارہ جاتی کمالیت پسندی کی خوبی رکھتے ہیں، بہت زیادہ منصوبہ بندی کرنے اور جلد ذہنی انتشار کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔ تجربے کے دوران ان رضاکاروں کو ایسی صورتحال سے گزارا گیا جو انہیں تنائو، فرسٹریشن، بیزاری اور سکون کا احساس دلائے۔محققین کا کہنا تھا کہ تنائو، فرسٹریشن اور بیزاری لوگوں کے اندر اعصابی بے چینی پیدا کی اور بیشتر ناخن چبانے لگے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس رویے سے اظہار ہوتا ہے کہ ایسے لوگ سکون نہیں رہ پاتے اور کاموں کو معمول کی رفتار سے سرانجام دینا چاہتے ہیں، مگر ایسا نہ ہونے پر فرسٹریشن، بے چینی اور عدم اطمینان کا شکار ہوجاتے ہیں۔اور اس طرح کے منفی جذبات پر قابو پانے کے لیے وہ ناخن چبانے لگتے ہیں۔

والدین کے ساتھ کھانا کھانے والے بچے دیگر بچوں کے مقابلے میں زیادہ صحت مند رہتے ہیں

ایک تازہ طبی مطالعے میں انکشاف ہوا ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ کھانا کھانے والے بچے دیگر بچوں کے مقابلے میں زیادہ صحت مند رہتے ہیں اور ان کی دماغی صلاحیتیں بھی بہتر ہوتی ہیں۔کینیڈا میں بچوں کی نفسیات کے ماہرین نے 5 ماہ سے 10 سال تک کی عمر کے بچوں کا جائزہ لینے کے بعد اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ باقاعدگی سے والدین کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھنے والے بچوں کے جسم و دماغ پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں، خاص طور پر 10 سال کے بچے اگر والدین کے ساتھ کھانا کھائیں تو وہ اچھی طرح کھانا کھاتے ہیں اور مضر مشروبات مثلا سافٹ ڈرنکس کی جانب کم متوجہ ہوتے ہیں۔ اس سروے کے بعد کینیڈا کے ماہرین نے کہا ہے کہ والدین اپنے بچوں کو ساتھ بٹھا کر کھانا کھانے کے عمل کو بچوں کی زندگی میں سرمایہ کاری تصور کریں، اس کی وجہ یہ ہے کہ کھاتے وقت خوشیوں پر مبنی باتیں ہوتی ہیں اور بچے والدین سے جذباتی طور پر قریب ہوجاتے ہیں۔یونیورسٹی آف مانٹریال میں نفسیات کی پروفیسر لنڈا پاگانی نے کہا ہے کہ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانے کا یہ عمل کئی طرح سے مفید ہے۔ بچے اس دوران اپنی بات اور مقف کا مثبت اظہار سیکھتے ہیں اور یوں وہ باقی دنیا سے اچھے انداز میں بات کرنا سیکھتے ہیں۔ پروفیسر لِنڈا نے 1997ء اور 1998ء کے درمیان کینیڈا کے شہر کیوبیک میں پیدا ہونے والے بچوں کا سروے کیا ہے اور اسے ایک طویل عرصے تک جاری رکھا گیا۔اس مطالعے کو کیوبیک لونگی ٹیوڈینل اسٹڈی آف چائلڈ ڈیویلپمنٹ کا نام دیا گیا جس میں والدین سے پوچھا گیا کہ جب ان کا بچہ 6 برس کا ہوجائے تو وہ یہ بتانا شروع کریں کہ وہ اس کے ساتھ کھارہے ہیں یا نہیں۔ اس کے بعد 10 سال کی عمر تک پہنچنے پر والدین اور اساتذہ سے بچے کی ذہانت، پڑھنے کی صلاحیت اور نفسیاتی کیفیات کے بارے میں رپورٹ کرنے کے لیے کہا گیا۔ماہرین نے کہا ہے کہ بچے اگر 6 سال کی عمر سے والدین کے ساتھ بیٹھیں اور کھانا کھائیں تو اس کے مثبت اثرات مرتب ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ 10 سال تک یہ بچے والدین سے الگ تھلگ رہ کر کھانے والے بچوں کے مقابلے میں قدرے چاق و چوبند اور صحت مند رہتے ہیں۔

بچوں کو باقاعدگی سے اخروٹ کھلانا ان کی دماغی نشو و نما کے لیے مفید ہے

ماہرین نے کہا کہ دماغ کی ترو تازگی کے لیے والدین بچوں کو باقاعدگی سے اخروٹ کھلائیں۔ فرانس کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اینڈ میڈیکل ریسرچ کے ماہرین کی تازہ تحقیق کے مطابق اخروٹ میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ اور سیلینیئم کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے جو دماغی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔
اگر آپ اپنے بچوں کو افسردگی سے دور رکھتے ہوئے ان کا دماغ تروتازہ رکھنا چاہتے ہیں اور اس بات کے بھی خواہشمند ہیں کہ بڑھاپے میں وہ دماغی امراض سے محفوظ رہیں تو انہیں باقاعدگی سے اخروٹ کھانے کا عادی بنائیے۔ ماہرین کے مطابق نوعمری کے زمانے میں جب بچے لڑکپن سے بلوغت کی طرف جارہے ہوتے ہیں تو ان کا دماغ بھی بہت سی تبدیلیوں سے گزررہا ہوتا ہے اسی لیے انہیں اس عمر سے اخروٹ کھانے کی عادت ڈالنی چاہیے کیوں کہ اخروٹ اومیگا تھری پروٹین سے مالامال ہوتے ہیں جو دماغ کے افعال کو درست رکھتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اخروٹ میں وہ تمام ضروری اجزا ہوتے ہیں جو عمر گزرنے کے ساتھ یادداشت کو کمزور ہونے سے محفوظ رکھتے ہیں۔ اومیگا تھری فیٹی ایسڈ انسانی جسم و دماغ کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے جو اخروٹ کے علاوہ پالک، روغنی مچھلی، السی کے بیجوں اور سویا بین میں بھی وافر پایا جاتا ہے۔تازہ تحقیق میں ماہرین نے چوہوں پر کچھ تجربات بھی کیے جن میں چوہوں کو اخروٹ میں شامل اہم اجزا دیے گئے اور ان میں یادداشت کے تجربات کیے گئے جن سے ثابت ہوا کہ اخروٹ ذہنی و دماغی صلاحیت برقرار رکھتے ہیں اور ڈپریشن وغیرہ کو بھی دور بھگاتے ہیں۔