بھارت کافریبِ نظر 

333

عارف بہار

خطے کی موجودہ کشیدہ صورت حال میں پاکستان اور بھارت کی افواج کے مابین ایک بار پھر جنگ اور ایٹمی ہتھیاروں کے بیانات کا تبادلہ ہوا ہے۔ یہ بحث اس وقت شروع ہوئی جب بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت نے کہا کہ پاکستان کی ایٹمی طاقت ایک دھوکا ہے حکومت نے حکم دیا تو بھارتی فوج پاکستان کے اندر داخل ہوکر کارروائی کرے گی۔ جس کے جواب میں پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے اس بیان کو غیر ذمے دارانہ قراردیا اور کہا کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار صرف بھارت کے لیے ہیں اور ہمارے قابل بھروسا جوہری ہتھیاروں ہی نے بھارت کو کسی مہم جوئی سے روک رکھا ہے۔ بھارت ہمارے عزم کو آزمانا چاہتا ہے تو آزما لے اس کا نتیجہ وہ خود دیکھ لے گا۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بھی ایک ٹویٹ کے ذریعے یہ تبصرہ کیا کہ بھارت ہمارے عزم کو آزمانا چاہتا ہے تو بخوشی آزمالے۔ بھارتی آرمی چیف کے بیان پر بھارت کے اندر بھی بہت سے طبقات نے خوشی کا اظہار نہیں کیا بالخصوص وہ سرمایہ دار طبقہ جن کے لاکروں اور تجوریوں کی رونقیں ہی امن اور علاقائی استحکام سے وابستہ ہیں، کس طرح چاہیں گے کہ دو ملکوں کے درمیان جوہری تصادم ہوجائے اور ان کی سرمایہ کاری ڈوب جائے۔ یوں بھی ایٹمی جنگ کوئی کھیل نہیں ہوتا۔ اس جنگ کی ہولناکیوں اور تباہ کاریوں کو دیکھنا ہو تو ہیرو شیما اور ناگا ساکی کو دیکھنا چاہیے۔ یہ اس زمانے کی یادگار ہیں جب ایٹم بم زیادہ مہلک اور تباہ کن نہیں ہوتے تھے۔ اب تو ایٹم بم کے استعمال کا مطلب ایک وسیع وعریض رقبے پر قیامت برپا ہونا ہے۔
پاکستان نے ایٹم بم کی تیاری کا کام شوقیہ طور پر شروع نہیں کیا بلکہ عالم مجبوری میں پاکستانیوں نے اپنا پیٹ کاٹ کر ایٹمی طاقت حاصل کرنے کی تگ ودو شروع کی۔ اس خواہش کا واحد محرک بھارت کا جارحانہ رویہ تھا۔ بھارت نے پاکستان کو دولخت کرکے ثابت کیا کہ پاکستان کو خوف بے سبب نہیں تھا۔ بھارت کو جب بھی موقع ملتا پاکستان کے باقی حصے پر بھی مہم جوئی سے باز نہ رہتا۔ اسی لیے پاکستان نے ایٹمی طاقت کے حصول کا فیصلہ کیا اور ایک مختصر عرصے میں یہ معجزہ کر دکھایا۔ جس کے بعد بھارت کے تمام جارحانہ منصوبے فائلوں میں پڑے اور دھرے رہ گئے۔ بھارت کو پاکستان پر جارحیت کی دوبارہ جرات نہ ہو سکی۔ بھارت کی اس مشکل کو آسان بنانے کے لیے عالمی طاقتیں پاکستان کے ایٹم بم کے پیچھے لگی ہوئی ہیں۔ پاکستان بار بار کہتا چلا آیا ہے کہ اس کی جوہری صلاحیت جارحیت کے لیے نہیں بلکہ دفاع کے لیے ہے۔ بھارت پاکستان کی جوہری طاقت کو ایک فریب اور سراب کہہ کر ایٹمی جنگ کے خطرات کو مزید بڑھا رہا ہے۔ پاکستان کے اندر داخل ہونے کے اسی فریب اور دھوکے میں بھارت کے فوجی جنرل کہیں خطے کو تباہ نہ کروا بیٹھے۔ بیانات کے انہی تیروں کے درمیان بھارتی فوج نے کنٹرول لائن پر کوٹلی سیکٹر جندروٹ میں کمیونیکیشن لائن کی مرمت کرنے والے پاک فوج کے جوانوں پر بلااشتعال فائرنگ کی جس میں چار جوان شہید ہوگئے۔ پاک فوج کی جوابی فائرنگ سے تین بھارتی فوجیوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ بھارتی کے ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ کو دفتر خارجہ طلب کرکے اس جارحیت کے خلاف احتجاجی مراسلہ تھمایا گیا۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کوٹلی سیکٹر میں بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ کی شدید مذمت کی ہے۔
کنٹرول لائن پر جارحیت کا تازہ واقعہ قطعی نیا نہیں بلکہ کشمیر کی کنٹرول لائن مسلسل کشیدگی کا مرکز چلی آرہی ہے جہاں آئے روز تصادم کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ فوجوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ تو معمول کی بات مگر بھارتی فوج عام آبادی کو بھی فائرنگ اور گولہ باری کا نشانہ بناتی ہے۔ خواتین اور بچے بھی اس سفاکی سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ بھارت اس دوسروں کے کندھوں پر سوار ہو کر مہم جوئی کے خواب دیکھ رہا ہے۔ وہ کندھا کسی اور کا نہیں پاکستان کے ساتھ دوستی اور تعلق کے دعوے دار امریکا کا ہے۔ چند دن قبل ہی دہلی میں سی آئی اے چیف کے دور ے کی خبر آئی تھی اور ترجمان دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ پاکستان سی آئی اے چیف کی دہلی میں سرگرمیوں سے آگاہ ہے۔ سی آئی اے چیف اس وقت بھارت میں کیا کرنے آئے تھے؟ یہ زیادہ مشکل سوال نہیں۔ اس وقت امریکا اور بھارت اسٹرٹیجک اتحاد کی ڈور میں بندھ چکے ہیں۔ اسٹرٹیجک اتحاد اور شراکت داری کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کے دوست اور دشمن یکساں اور مشترک ہو چکے ہیں۔ پاکستان اس وقت بھارت کے ساتھ کئی محاذوں پر حالت جنگ میں ہے۔ گویا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اس وقت دشمنی کا تعلق ہے۔ دونوں کے درمیان سرد جنگ اور کشیدگی منجمد ہی نہیں بلکہ باقاعدہ تصادم بھی جاری ہیں۔ اس لیے امریکا بھی پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لیے بھارت کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے۔ دفاعی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکا پاکستان پر براہ راست جارحیت اور سلالہ جیسی کسی کارروائی کا متحمل نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس طرح پاکستان افغان فوج کی رسد کی صورت اس کی شہ رگ کاٹنے کی پوزیشن میں آسکتا ہے۔ اس لیے امریکا بھارت کے ذریعے پاکستان کے خلاف کوئی جارحانہ کارروائی کراسکتا ہے مگر امریکا اور بھارت دونوں یہ بات فراموش کررہے ہیں کہ یہ 1971کا زمانہ نہیں بلکہ آج پاکستان جارحیت کے مقابلے کے لیے پوری طرح کیل کانٹے سے لیس ہے۔ بھارت کو اس بات کا بخوبی علم ہے۔ کنٹرول لائن پر جھڑپوں کی بات اور ہے مگر کھلی جنگ اور جارحیت میں پھر ہر داؤ جائز قرار پاتا ہے۔