کیا ایسا ممکن ہے

322

بابا الف کے قلم سے

چاروں اطراف ہم آگ بھڑکا رہے ہیں اور چاہتے ہیں ہماری بچیاں، ہماری زینبیں اس آگ سے محفوظ رہیں۔ ایسا ممکن ہے؟
انسانوں کے علاوہ جانداروں کی دیگر انواع اور اقسام میں جنسی میلان اور جنسی عمل ایک خاص حد، خاص موسم یا مخصوص دورانیہ تک محدود ہے۔ وقت کے اس عرصے میں ہی نر اور مادہ جنسی تجربے سے گزرتے ہیں۔ جنسی عمل اسی حد تک اور اتنی ہی مقدار میں دہرایا جاتا ہے جتنا ان کی نسل کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ ان کی فطرت انہیں اس حد سے آگے گزرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ انسانوں میں یہ عمل غیر محدود، وقت اور موسم کی قید سے آزاد اور دیگر انواع سے زیادہ ہے۔ مرد اور عورت ایک دوسرے کی طرف دائمی میلان رکھتے ہیں۔ ان کے اندر صنفی کشش اور جنسی جذبات غیر محدود ہیں۔ مرد اور عورت کے جسم کی ساخت، ان کے اعضا کا تناسب، رنگ روپ اور لمس، ایک ایک ادا صنف مخالف کے لیے کشش رکھتی ہے۔ اس کشش کا مقصد یہ نہیں ہے کہ انسان تمام حیوانات سے بڑھ کر جنسی عمل کرے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے سے لاتعلق نہ رہیں بلکہ باہم مربوط رہیں۔ ان کے درمیان پیار اور محبت کے جذبات مضبوط ہوں تاکہ ایک خاندان کی بنیاد پڑسکے۔ ایک مہذب اور تمدن سے آراستہ سماج تشکیل پاسکے۔ اس بے محابا جذبے کو قابو کرنے کے لیے عورت کے اندر اللہ سبحانہٗ تعالیٰ نے جنسی خواہش اور صنفی کشش کے ساتھ ساتھ شرم وحیا کی صورت میں ایک رکاوٹ کا مادہ پیدا کیا ہے جو کم وبیش ہر عورت میں پایا جاتا ہے۔ جنسی عمل کو، عورت مرد کے جنسی جذبات کی تسکین کوکنٹرول کرنے کے لیے نکاح تک محدود کیا گیا ہے۔ جنسی تسکین کے لیے صرف ایک ہی راستہ بتایا گیا ہے۔ بیوی کے لیے شوہر، شوہر کے لیے بیوی۔ ترمذی کی حدیث ہے۔ سیدالمرسلین ؐ کا فرمان ہے ’’جب تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کو دیکھ لے اور اس کے حسن سے متاثر ہو تو اپنی بیوی کے پاس چلا جائے کیوں کہ اس کے پاس وہی ہے جو اس کے پاس تھا۔‘‘ صنفی انتشار اور بے راہ روی سے بچنے کے لیے عورت اور مرد کے آزادانہ اختلاط اور میل جول کو اسلام میں ناپسند کیا گیا ہے۔ جنس کی قوت کسی شخص کی ذاتی صلاحیت سے بڑھ کر سماج اور انسانیت کی امانت قرار دی گئی ہے تاکہ اس کے نتیجے میں جو فرد جنم لے۔ پورا معاشرہ اور خاندان اس کے استقبال کی تیاری کرے۔ محبت اور شفقت کے جذبوں سے اسے ہاتھوں ہاتھ لے نا کہ وہ خاندان کے لیے بدنامی اور معاشرے کے لیے ناروا بوجھ ثابت ہو۔ زنا اور بے راہ روی کے جرم کی تحریک اور اس کی طرف ترغیب دلانے والی ہر چیز کو جڑ سے کاٹا گیا ہے۔
ایک ایسا جذبہ جو انسان میں دیگر انواع کے مقابلے میں پہلے ہی لا محدود اور زبردست ہے، اسے محدود کرنے اور غیر تباہ کن بنانے کے بجائے سرمایہ دارانہ مغربی تہذیب دنیا بھر میں اسے مزید بھڑکانے اور جنسی پیاس کو بڑھانے میں مصروف ہے۔ جنسی طلب کو شدید سے شدید تر کیا جا رہا ہے۔ جذبات کی یہ آگ پاکستان میں بھی پوری شدت سے بھڑکائی جارہی ہے۔ پاکستان کو عالمی برادری میں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ سب سے زیادہ عریاں فلمیں دیکھنے والی قوم ہے۔ آج نوجوانوں کی اکثریت اینڈ رائیڈ موبائلز، کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ کی اسکرین کے آگے بیٹھی ہوئی۔ جہاں ایک ہلکے سے اشارے سے پورن ویڈیوز کا ہلاکت خیز سمندر ٹھاٹھیں مارتا نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔ ان ویڈیوز میں درندگی اور بے حیائی کے وہ مناظر ہوتے ہیں کہ انسان تو کجا درندوں کے تصور میں بھی نہ ہوں۔ پورن ویڈیوز کی لت ایسی عادت ہے کہ تھوڑے ہی دنوں میں آدمی ایک جیسے مناظر کی تکرار سے اکتا کر مزیدکی طلب میں فحاشی اور گناہ کی نئی نئی وادیوں میں آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس کی تشنگی بڑھتی ہی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ خود اس عمل کا حصہ بننے کی تگ ودو میں لگ جاتا ہے۔ ان فلموں سے زیادہ جذبات میں انتشار پیدا کرنے کا مواد کہانیوں کی صورت میں موجود ہے۔ آپ کو حیرت ہوگی نیٹ پر ان فحش کہانیوں کو پڑھنے والوں کی تعداد دس بیس ہزار، لاکھ دولاکھ نہیں تیس تیس لاکھ سے متجاوز ہے۔ اس صورت حال میں یہ کیسے ممکن ہے کہ زینب جیسے واقعات کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ ان فلموں اور کہانیوں کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں ہم جنس پرستی ایک وبا کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔ کچرا چننے والے بچے اور نہ جانے کہاں کہاں بچے اور نوجوان اس کا شکار ہیں۔
اسلام میں بوائے فرینڈ یا گرل فرینڈ کا کوئی تصور نہیں۔ یہ ایک حرام عمل ہے۔ فیس بک اور دیگر ویب سائٹس کے بے محابا استعمال سے اب یہ عمل شاید ہی کسی نظر میں حرام ہو۔ نوجوانوں کی عظیم اکثریت جانے انجانے لوگوں سے دوستیاں کررہی ہے۔ جرائم پیشہ لوگوں کا شکار بن کر مختلف طریقوں سے بلیک میل ہوکر نہ دنیا کی ہے اور نہ آخرت کی۔ رہی سہی کسر ٹی وی چینلوں نے پوری کردی ہے۔ آپ کتنا ہی ان خرافات سے بچنا چاہتے ہوں ہر چینل کی خبروں میں آپ انڈیا اور ہالی وڈ کی فلموں کے فحش ٹوٹے دیکھنے پر مجبور ہیں۔ جب تک آپ ریموٹ سے چینل تبدیل کریں گے نہ جانے کتنے ہی شرمناک مناظر آپ کی نظروں سے گزر چکے ہوں گے۔ بیش تر چینلوں پر انڈین فلم ایوارڈز دکھانا معمول ہے۔ یہ بارہ مصالحے کی چاٹ ہے۔ جسے خاندان کے بچے بڑے نہایت شوق سے دیکھتے ہیں۔ انتہائی عریاں رقص اور اداکاروں کی اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں اور باتیں اب تو کسی کو معیوب بھی محسوس نہیں ہوتیں۔ ہر کیبل آپریٹر دس بارہ چینل انڈین اور ہالی وڈ فلموں کے چلا رہا ہے کیوں کہ ان پر دکھائے جانے والے اشتہارات ان کی آمدنی کا اضافی ذریعہ ہیں۔ فحاشی، عریانی اور جنسی تلذذسے بھرپور یہ فلمیں غیر سنسر شدہ ہوتی ہیں۔ مارننگ شوز الگ مسئلہ ہیں۔ پوری دنیا میں مارننگ شوز کو تعمیری اور اصلاحی بناکر پیش کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں مارننگ شوز میزبان اور مہمانوں کی سطحی اور لایعنی گفتگو پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان پروگراموں کے بیش تر مہمان شوبز سے وابستہ ہوتے ہیں۔ بیوٹی ٹپس، انڈین گانوں پر ناچنا، شادی کے انتظامات، نوبیاہتا جوڑوں کے چونچلے اور ایسی خواتین جن پر مردوں نے ظلم کیے ہوں اور وہ رو رو کر سرعام دنیا کو اپنے گھر کی باتیں بتا رہی ہوں ان پروگراموں کا خاصہ ہیں۔ ان پروگراموں کا زور مرد اور عورتوں پر یہ بھوت سوار کرنا ہوتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ جوان بلکہ نوجوان اور صنفی کشش کے حامل نظر آئیں۔ ٹی وی ڈراموں کا جہاں تک تعلق ہے تو ان میں بیش تر ڈراموں میں کوشش کی جاتی ہے کہ شجر ممنوع اور پاکستانی روایات کے خلاف موضوعات کو زیادہ سے زیادہ پیش کیا جائے۔ ان ڈراموں کے بیش تر کردار باہم لڑتے جھگڑتے، خاندانی تنازعات کو ہوا دیتے اور رشتوں کے تقدس کو پامال کرتے نظر آتے ہیں۔
سیدنا عمر فاروقؓ نے اس بات کا اہتمام کیا تھا کہ میاں بیوی چار ماہ سے زیادہ ایک دوسرے سے دور نہ رہیں۔ بچیوں کے رشتے طے کرتے وقت آج کل والدین کی پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ لڑکا کہیں بیرون ملک روزگار کماتا ہو۔ شادی انجام پانے کی صورت میں نئے نئے دلھن دولھا چند ہفتے یا مہینے باہم گزارتے ہیں اور اس کے بعد لمبی جدائی کے نا ختم ہونے والے وقفے۔ اسی طرح دیگر علاقوں سے آئے ہوئے چوکیداروں اور ڈرائیور حضرات کی اکثریت سال ہا سال اپنی بیویوں سے دور رہتی ہے۔
سورہ نور میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا فرمان ہے کہ وہ لوگ جو ایمان والوں میں بے حیائی پھیلانا پسند کرتے ہیں ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس سے جنم لینے والے افکار ہیں جو انسانی جبلتوں اور جنسی عمل کو آزاد اور آوارہ چھوڑنے کی بھرپور حوصلہ افزائی کرکے اسلامی معاشروں میں فحاشی، عریانی، زنا اور بے حیائی پھیلا رہے ہیں جس کے نتیجے میں معاشرے کے کمزور افراد خواتین اور بچے درندوں کی وحشت کا شکار ہو رہے ہیں۔ چاروں اطراف ہم آگ بھڑکارہے ہیں اور چاہتے ہیں ہماری بچیاں، ہماری زینبیں اس آگ سے محفوظ رہیں۔ ایسا ممکن ہے؟۔