میڈیا کے محبوب

444

مفتی منیب الرحمن

یادش بخیر! سیاسی بشارات کے امام اور ہمارے الیکٹرونک میڈیا کے محبوب جناب شیخ رشید احمد کو سال 2017 جاتے جاتے دکھ دے گیا، انہوں نے فرمایا: ’’فوج اعتکاف میں ہے اور عدلیہ حجاب میں ہے‘‘، گزشتہ دورانیے میں ان کی نوکِ زبان پر یہ کلمات تھے: ’’پنڈی والے لسّی اور ستّو پی کر سو رہے ہیں‘‘۔ ہم راولپنڈی کے باسی نہیں ہیں، اس لیے اس حوالے سے ہماری معلومات صفر ہیں، جب کہ جناب شیخ پڑوس میں رہتے ہیں اور ہمارے ہاں شِعار یہ ہے کہ پڑوسی ایک دوسرے کی سُن گُن لیتے رہتے ہیں۔ البتہ وطن کے دفاع اور ناموس کا تقاضا ہو تو فوج کو دشمن کے مقابل مورچوں میں معتکف ہونا پڑتا ہے اور فوج سے بہتر کون جانتا ہے کہ ملک انتہائی نازک اور پُرخطر دور سے گزر رہا ہے، ایسے میں داخلی استحکام اور امن وطن کی ضرورت ہے۔ ہماری دانست میں جہاں تک عدلیہ کا تعلق ہے تو اسے اعتبار کا خسارہ حجاب کے سبب نہیں، بلکہ بے حجابی سے ہوا ہے، حتیٰ کہ 28جولائی 2017 کو عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ کی طرف سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے سے سب سے زیادہ مستفید ہونے والے جناب عمران خان بھی پکار اٹھے ہیں: ’’عدالت عظمیٰ کو نواز شریف کی نااہلی کا سبب اقامے کو نہیں بنانا چاہیے تھا‘‘، گویا جناب خان کو اب ادراک ہوا ہے کہ نا اہلی کے اسی سبب کی بنا پر نواز شریف صاحب اپنی مظلومیت کا تاثّر دینے میں ایک حد تک کامیاب رہے ہیں۔ جناب اوریا مقبول جان نے اپنے تجزیے میں کہا: ’’ایک جیسے حقائق پر مشتمل تین مقدمات میں تین باہم متضاد فیصلے آئے ہیں، یہ سب فیصلے درست نہیں ہوسکتے، ان میں سے یقیناًایک درست اور دو غلط ہوں گے‘‘۔ ویسے تو بشر خطا کا پُتلا ہے، تینوں فیصلے بھی قانونی طور پر نافذ ہونے کے باوجود غلط ہوسکتے ہیں۔ پھر جناب شیخ نے ’’حدیبیہ پیپر مل کیس‘‘ کے ذریعے شریفوں کی سیاست سے ہمیشہ کے لیے اخراج کی قطعی امید باندھ لی، مگر بالآخر انہیں مایوسی ہوئی۔ ظاہر ہے جب مسیحی دانشور خلیل جبران اور ناول نگار ماریو پوزو کے اقتباسات سے عدالت عظمیٰ کے فیصلے مزیّن کیے جائیں گے، تو سوالات ضرور اٹھیں گے، پھر تو مناسب ہے کہ ایل ایل بی کے نصاب میں آئین وقانون کی کتابوں سے زیادہ مغربی دانشوروں کے افسانے اور ناول شامل کردیے جائیں۔ شنید ہے کہ عدلیہ کی بے حجابی کے اور بھی بہت سے قرائن سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔
شیخ صاحب کو دوسرا دکھ جناب ڈاکٹر طاہر القادری کی اے پی سی سے پہنچا۔ شیخ صاحب نے پسِ پردہ اس کے لیے بہت محنت کی تھی، اُنہیں توقع تھی کہ ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ والا فیصلہ ہوگا، جیسا کہ 2014ء کے دھرنے سے پر جوش انداز میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا: ’’مارو، مرجاؤ، آگ لگادو‘‘۔لیکن دانش غالب آگئی اور فوری طور پر ایسا فیصلہ نہ ہوسکا، اس سے شیخ صاحب کو دھچکا لگا۔ شیخ صاحب نے اس کے لیے بڑی ریاضت سے جنابِ عمران خان کو یہ بیان دینے پر آمادہ کیا تھا کہ وہ کرپشن کے خلاف تحریک میں جناب زرداری کے ساتھ بھی بیٹھ سکتے ہیں، کیوں کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے، جب کہ خان صاحب کا یہ قولِ زرّیں ریکارڈ پر ہے: ’’زرداری صاحب کا کرپشن کے خلاف مہم چلانا قیامت کی نشانی ہے‘‘۔ الغرض عمران خان اور آصف علی زرداری کا ایک آستانے پر حاضر ہونا شیخ صاحب اور ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی مشترکہ ’’سیاسی کرامت‘‘ ہے۔
ہمارے ’’سیاسی کاہن‘‘ جناب شیخ کا دم غنیمت ہے کہ بہت سے قد کاٹھ والے اینکر پرسنز کے روزگار میں برکت کا وسیلہ بنے ہوئے ہیں۔ وہ ایسے باکمال ہیں کہ بعض اوقات ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ اینکرز کے لیے ریٹنگ بڑھانے کا سبب بنتے ہیں، بندہ سوچتا ہے کہ اگر شیخ صاحب نہ ہوتے تو عہدِ حاضر کی دانش کے اِن افلاطونوں کا کام کیسے چلتا۔ بعض پیش گوئیوں اور بشارتوں کے پورا نہ ہونے پر شیخ صاحب پر طعن کرنا قرینِ انصاف نہیں ہے، خاتم النبیین سیدنا محمد رسول اللہ ؐ کی بعثت سے پہلے عالَمِ بالا کی سُن گن لے کر شیاطین اپنے چیلے کاہنوں کو جو خبریں دیتے تھے، وہ بھی ٹوٹوں کی صورت میں صحیح و غلط کا امتزاج ہوتی تھیں، مگر جزوی صداقت بھی اُن کا کاروبار چلانے کے لیے کافی تھی، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’(جنات نے کہا:) اور ہم نے (غیبی خبریں جاننے کے لیے) آسمان کو ٹٹولا تو دیکھا کہ اُسے سخت پہرے اور آگ کے شعلوں سے بھردیا گیا ہے، حالاں کہ ہم اس سے پہلے وہاں سن گن لینے کے لیے بعض ٹھکانوں پر بیٹھ جایا کرتے تھے، سو اب جو سن گن لے گا تو وہ اپنی تاک میں آگ کا شعلہ پائے گا، (الجن: 8-9)‘‘۔ بعض اوقات غیبی خبر کے غلط نکلنے کا سبب یہ ہوتا ہے کہ پیچھے سے پالیسی بدل جاتی ہے، جس کا علم بروقت جناب شیخ کو نہیں ہوتا، علامہ اقبال کے بقول شطرنج کا پیادہ شاہ سے کہتا ہے:
شاطر کی عنایت ہے تو فرزیں میں پیادہ
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ
شاطر شطرنج کی بساط بچھانے والے کو اور فرزیں بساطِ شطرنج کے مُہروں میں سے شاہ کو کہتے ہیں۔سو شاطر کے ارادے پر مطلع ہونا ذرا دشوار امر ہے، اس لیے جناب شیخ کو بھی رعایتی نمبر ملنے چاہییں۔جنابِ شیخ کی کم از کم ایک بشارت کہ: ’’عدالت عظمیٰ سے شریفوں کے اقتدار کا تابوت نکلے گا‘‘۔ جزوی طور پر سچ ثابت ہوئی ہے۔ عدالت عظمیٰ سے شریفوں کے اقتدار کا تابوت تو نہ نکلا، کیوں کہ تاحال اُن کی حکومت قائم ہے، لیکن نواز شریف صاحب بطورِ وزیر اعظم معزول کردیے گئے۔ پس اتنی تعبیر بھی جناب شیخ کی بشارات کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے کافی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے کہنا شروع کیا: ’’نواز شریف اپنے بھائی شہباز شریف کو وزیر اعظم نہیں دیکھنا چاہتا‘‘، اس سے اُن کا مقصد دونوں بھائیوں میں بے اعتمادی پیدا کرنا تھا۔ پھر جب نواز شریف صاحب نے شہباز شریف صاحب کو وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار نامزد کر دیا، تو شیخ صاحب نے کہا: ’’یہ دونوں چور ہیں، نواز اور شہباز میں کوئی فرق نہیں ہے، کیوں کہ بھائیوں میں بے اعتمادی پیدا کرنے والا حربہ ناکام ہوگیا‘‘۔
شریف برادران کو وقتاً فوقتاً سعودی عرب جاتے رہنا چاہیے، اُن کے وہاں جانے سے ہمارے میڈیا پرسنز اور سیاست دانوں کا بہت فائدہ ہوا، انہیں ایک ہفتے کے لیے تجزیوں اور تبصروں کا موضوع مل گیا، سو جب بھی موضوعات کا قحط ہو تو انہیں بھی شیخ صاحب کی طرح ان تجزیہ کاروں اور ماہرین کی مدد ضرور کرنی چاہیے، لوگوں کی روزی میں برکت کا وسیلہ بننا کارِ ثواب ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں نے مسلم لیگ ن کے خلاف اے پی سی بلاکر متحدہ محاذ کا تصور دیا ہے، اس سے بھی نواز شریف صاحب کو فائدہ پہنچ رہا ہے اور ان کی سیاسی قامت بلند ہورہی ہے۔ ماضی میں یہ اعزاز صدر ایوب خاں مرحوم اور جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو نصیب ہوا تھا کہ پوری اپوزیشن ان کے خلاف متحد ہوگئی تھی، اس سے یہ ثابت ہورہا تھا کہ کوئی بھی جماعت اکیلے اُن کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی، سو اَب بھی اگر اہم اپوزیشن جماعتیں ویسی ہی بے اعتمادی اور کم مائیگی کا شکار ہوگئی ہیں، تو اس کا براہِ راست فائدہ نواز شریف صاحب کو پہنچے گا۔ پس کم تر برائی کا جو فلسفہ ماضی میں ہماری سیاست میں متعارف ہوا تھا، وہ اب بھی پوری آب وتاب کے ساتھ قائم ہے، جنابِ آصف علی زرداری کی خوش نصیبی ہے کہ ماضی میں کل برائی قرار دیے جانے کے باوجود اب وہ کم تر برائی قرار پائے ہیں یا شاید پاکباز لوگوں کی صف میں شامل ہوگئے ہیں۔ ماضی میں محمد خان جونیجو اور اب شاہد خاقان عباسی وزارتِ عظمیٰ کا منصب نسبتاً ریلیکس ہوکر چلا رہے ہیں، نواز شریف سے گلہ تھا کہ وہ پارلیمنٹ،کابینہ، نیشنل سیکورٹی کونسل اور مشترکہ مفادات کی کونسل ودیگر آئینی اداروں کو نظر انداز کر کے خود میں مگن ہوکر حکومت کے معاملات چلا رہے ہیں، شاہد خاقان عباسی صاحب نے اِن شکایات کی تلافی کردی ہے۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو پارلیمنٹ میں تحریک استحقاق پیش کرنے والے کو اٹھواکر باہر پھینک دیتے تھے، اس کے برعکس محمد خاں جونیجو کے دور میں پارلیمنٹ کا کوئی رکن آکر کہتا کہ ٹریفک کانسٹیبل نے میری گاڑی روک کر میرا استحقاق مجروح کیا ہے، تو وہ کہتے: ’’تحریک استحقاق کمیٹی کے سپرد کردو‘‘، پھر سب کچھ ٹھیک رہتا، بس رکن پارلیمنٹ کی انا کو تسکین پہنچ جاتی، چھوٹے سرکاری اہلکاروں پر دھاک بیٹھ جاتی اور راوی چین لکھتا۔ جونیجو مرحوم نے تو اپنے ایک وزیر چودھری انور عزیز کو کرپشن کے الزام پر اور گورنر سرحد یعنی خیبرپختون خوا عبدالغفور خاں ہوتی کو امریکا میں ان کے فرزند کے نارکوٹک ٹریفکنگ کے الزام میں گرفتار ہونے پر برطرف بھی کردیا تھا،
چودھری انور عزیز پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے حلقے کے ترقیاتی فنڈ اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں جمع کیے ہیں۔
یورپ و امریکا میں کاروں میں نیویگیٹر نصب ہوتا ہے، میں اپنے دوستوں سے تفنُّنِ طبع کے طور پر کہتا ہوں: ’’یہ آپ کا مُؤکّل ہے‘‘، اگر ڈرائیور کبھی دانستہ یا نادانستہ نیویگیٹر کی ہدایت سے انحراف کرے تو وہ قطعاً ناراض نہیں ہوتا، بلکہ تحمل کے ساتھ دوبارہ اُن کی رہنمائی شروع کردیتا ہے۔ یہی ہمارے شیخ صاحب کی خصوصیت ہے کہ جب ان کی پہلی ڈیڈ لائن ختم ہوتی ہے، تو کسی توقف یاندامت کے بغیر فی الفور نئی ڈیڈ لائن دے دیتے ہیں، پروین شاکر نے کہا:
وہ کہیں بھی گیا، لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی، میرے ہرجائی کی
حضرت دُھن کے پکے ہیں، حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں، حکومتیں گرانے کی آس نہیں چھوڑتے، اشفاق احمد خان نے ’’زاویہ‘‘ پروگرام میں ایک بڑھیا کی خوبی بیان کی کہ وہ ہر بات سے اچھا پہلو نکال لیتی تھی، ایک بار ہم نے اُن کو پھنسانے کے لیے پوچھا: ’’مائی جی! شیطان کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘، اُس نے کہا: ’’پُت (بیٹا)! دُھن دا بڑا پکّا اے‘‘۔