پاکستان کی امریکا سے معاونت

302

امریکا پاکستان کو مسلسل دھمکارہا ہے کہ اپنا رویہ ٹھیک کرے، اربوں ڈالر دہشت گردوں کی معاونت کے لیے نہیں دیے تھے۔ امداد اسی لیے بند کی گئی ہے کہ پاکستان کے دماغ ٹھکانے آجائیں۔ لیکن پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان پاکستانیوں کو تسلی دے رہے ہیں کہ امریکا سے کوئی تعاون معطل نہیں کیا، تمام شعبوں میں معاونت جاری ہے۔ جہاں تک تعاون معطل کرنے کی بات ہے تو ظاہر ہے کہ یہ کام امریکا کرے گا، پاکستان نہیں کرسکتا۔ ترجمان کے مطابق امریکا سے تعلقات میں بہتری کے لیے مسلسل رابطے ہورہے ہیں جس کی تفصیلات نہیں بتائی جاسکتیں۔ یعنی پاکستانی حکمران ذہنی طور پر 100 پیاز کھانے کو تیار ہیں۔ وزیر دفاع خرم دستگیر فرماتے ہیں کہ فی الوقت امریکا سے سیکورٹی اور انٹیلی جنس تعاون موجود نہیں اور ایسا نہیں ہوگا کہ اس کے لیے ہم امریکی سفارتخانے کو نوٹس کے ذریعے مطلع کریں کہ اب ہم تعاون روک رہے ہیں کیونکہ یہ تعاون کسی تحریری معاہدے کے تحت شروع نہیں کیا گیا تھا۔ خرم دستگیر کے مطابق 2001ء میں فوجی حکومت تھی جس نے کسی معاہدے کے بغیر انٹیلی جنس تعاون کیا بلکہ اڈے بھی دے دیے، فضائی راہداری بھی دیدی اور افغانستان کے لیے زمینی راہداری بھی امریکا کے حوالے کردی۔ بات تو صحیح ہے لیکن فوجی حکومت 2008ء میں ختم ہوگئی تھی اور اس کے بعد پیپلزپارٹی پھر مسلم لیگ ن کی حکومت آئی۔ خرم دستگیر بتائیں گے کہ کیا سول حکومتوں نے امریکا کو دی گئی سہولتیں واپس لے لیں یا سلسلہ چلتا رہا اور اب بھی چل رہا ہے۔ ایک اور وفاقی وزیر کہتے ہیں کہ ہمیں امریکی امداد کے بغیر ہی زندہ رہنا ہوگا۔ بظاہر تو یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے اور عوام اس کے لیے ہر وقت تیار ہیں لیکن کیا حکمران بھی استقامت دکھائیں گے؟ ایسا لگتا تو نہیں کیونکہ جب یہ کہا جائے کہ امریکا سے تعاون معطل نہیں کیا تو اس میں یہ آرزو پوشیدہ ہے کہ امریکا بھی ہم سے تعاون کرتا رہے اور اپنا ہاتھ نہ کھینچے۔ اسے حسن طلب کہا جاسکتا ہے گو کہ اس میں کوئی حسن نہیں۔ امریکا کے حوالے سے وزراء جس قسم کے متضاد بیانات دے رہے ہیں ان سے لگتا ہے کہ وہ خود بھی یکسو نہیں اور چاہتے ہیں کہ امریکا ان کی سرپرستی کرتا رہے۔ امریکی دھمکیوں کے پیش نظر فوری طور پر تو افغانستان کے لیے امریکی راہداری بند کردی جائے تاکہ اسے بھی ایک واضح پیغام مل سکے۔ لیکن کیا ہمارے حکمران بتائیں گے کہ اس حوالے سے حکومت پاکستان نے کیا کیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ امریکا افغانستان میں جنگ ہار چکا ہے۔ اس کا اعتراف خود امریکی جنرل نکلسن نے امریکی ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا ہے کہ ’’امریکا اور ناٹو افواج افغانستان میں مکمل ناکام ہوگئی ہیں‘‘۔ امریکا اور ناٹو افواج 2002ء سے افغانستان پر قابض ہیں اور صورتحال یہ ہے کہ افغان صدر بھی اعتراف کررہے ہیں کہ ملک کے بڑے حصے پر طالبان کا کنٹرول ہے، ہم بے بس ہیں اور امریکی امداد کے بغیر ہماری حکومت 3 دن میں گر جائے گی۔ جنرل نکلسن نے اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے مزید کہا کہ کابل کی صورتحال سنگین ہے اور ایسے میں پاکستان پر تعاون کے لیے سخت دباؤ ڈال رہے ہیں۔ لیکن دھمکیاں دینے اور مزہ چکھا دینے کے اعلانات سے تعاون حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ امریکا پر اپنی زمینی اور فضائی گزر گاہیں بند کردے۔ یوں بھی امریکا کو فراہم کردہ یہ سہولتیں اسلامی غیرت کے منافی ہیں مگر حکمرانوں کو اس سے کیا تعلق۔