راؤ انوار پر قسمت مہربان ہے یا ان کے پیچھے مہربان ہیں۔

300

کراچی (رپورٹ خالد مخدومی) کراچی پولیس کے انتہائی متنازع کردار راؤ انوار کو کو ایک اور انکوائری کا سامناہے ۔ راؤ انوارکو قاضی حسین احمد کی تحریک پر بے گناہ شہری کے قتل کے الزام میں قید کا سامنابھی کرنا پڑا۔ تاہم ایساان کے ساتھ پہلی بار نہیں ہو ا ،وہ اپنے مشکوک پولیس مقابلوں اور بعض دوسرے معاملات کی وجہ سے متعدد مرتبہ اس صورتحال سے گزر چکے ہیں‘ 35 سالہ کیریئر میں انہیں ہر انکوائری سے کلین چٹ ہی ملی ہے، اب یہ ان کی قسمت ہے یا تعلقات جو ان پر آنچ آنے نہیں دیتے یہ حقیقت کبھی کھل کر سامنے نہیں آسکی ہے، نوجوان نقیب اللہ محسود کی مبینہ ماورائے عدالت ہلاکت پر ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کوعدالت عظمیٰ اور پولیس کی محکمہ جاتی تحقیقات کا سامنا ہے، کاؤنٹر ٹیررازم محکمے کے چیف ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی کے روبرو وہ بیان ریکارڈ کراچکے ہیں،
میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے نقیب اللہ کو مطلوب ملزم قرار دیا ہے۔کراچی پولیس کے راؤ انوار شاید واحد رینکر افسر ہیں جو کسی ضلعے کی سربراہی کر رہے ہیں۔ راؤ انوار 1980ء کی دہائی میں پولیس میں بطور اے ایس آئی بھرتی ہوئے، بطور سب انسپکٹر ترقی پاتے ہی ایس ایچ او کے منصب پر پہنچ گئے،راؤ انوار اپنے ابتدائی دور میں کھارادر میں بھی تعینات رہے جہاں اس نے ایک غریب ماہی گیرابراہیم ماچھی کو پہلے گرفتارکیا اور مطلوبہ رشوت نہ ملنے پر اس کوپانی کی ٹنکی میں ڈال کر قتل کردیا، اپنی اس کارروائی کو قانونی رنگ دینے کے لیے اس وقت کاایس ایچ او راؤ انوار پولیس اہلکاروں کے ہمراہ ابراہیم ماچھی کے گھر چھاپہ مار نے پہنچاتو ا س کے ساتھ آنے والے پولیس اہلکاروں کے قدموں تلے آکر فرش پر سویاہو ا ایک4 ماہ کا بچہ شدید زخمی ہو ا جو بعدازں دم توڑ گیا، ان واقعات کی اطلاع پر اس وقت کے امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسیں احمد نے فوری طور پر اپنی جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں پر مشتمل تنظیم پاسبان کو اس معاملے پر آواز اٹھانے کی ہدایت دی اور خود بھی کراچی پہنچنے کا فیصلہ کیا او ر مظلوم خاندان کوانصاف دلانے کا اعلان کیا، اس اعلان کے بعد کراچی پولیس اور راؤانوار کے حماتیوں میں کھلبلی مچ گئی،اور ان کی جانب سے پاسبان اور قاضی حسین احمد کوروکنے کی ہرممکن کو شش کی گئی تاہم قاضی حسین احمد اپنے اعلان کردہ وقت کے مطابق کھارادر تھانے پہنچے ، جس پرا علیٰ پولیس افسران کوراؤ انوار کو گرفتار کرنا پڑا اور اس کے اپنے تھانے کی حوالات میں بندبھی کیاگیا ۔ اس کے بعد راؤ انوار کی زیادہ تر تعیناتی گڈاپ میں رہی ، کراچی میں متحدہ قومی کے خلاف ہو نے والے آپریشن میں بھی راؤ انوار پیش پیش رہا تاہم جنرل مشرف کی جانب متحدہ کو حکومت میں شامل کیے جانے پر وہ چھٹیوں پر بیرون ملک چلاگیا۔ جب پیپلز پارٹی نے سندھ میں اقتدار سنبھالا تو راؤ انوار نے دوبارہ کراچی کا رخ کیا، گزشتہ 10 سال میں وہ زیادہ تر ایس پی ملیر کے عہدے پر ہی فائز رہاہے۔ ملیر ضلع کی حدود ساحل سمندر پر واقع مچھیروں کی بستی سے لے کر سپر ہائی وے پر موجود افغان بستی تک پھیلی ہوئی ہے، بحریہ ٹاؤن سے لے کر متعدد رہائشی منصوبے بھی اسی حدود میں زیر تعمیر ہیں جبکہ ریتی بجری بھی ملیر ندی سے ہی نکالی جاتی ہے جو کروڑوں کا کاروبار ہے۔ اس علاقے میں زیادہ تر آبادی سندھی، بلوچ اور پشتون ہے۔ سپر ہائی وے پر بڑے تعمیراتی منصوبے کے بعد سہراب گوٹھ کے آس پاس میں مبینہ پولیس مقابلوں کا آغاز ہوا، جن میں ایس ایس پی راؤ انوار کی قیادت میں درجنوں مبینہ شدت پسندوں کو ہلاک کیا گیا تاہم اس مقابلوں میں پولیس کو کوئی جانی نقصان نہیں پہنچا۔ راؤ انوار نے 2016ء میں دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ 150 سے زائد مقابلے کرچکے ہیں اگر انہیں ہٹایا نہیں گیا تو وہ اس میں اضافہ کریں گے، اپنے مقابلوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ ان کا پہلا مقابلہ ایم کیو ایم کے فہیم کمانڈو کے ساتھ ہوا تھا جس میں وہ مارا گیا۔ کراچی میں گزشتہ دس برس میں کچھ پولیس اہلکاربھی مختلف حملوں میں مارے گئے ،انویسٹی گیشن پولیس کے ایک سابق ایس پی نے ان واقعات کی وجہ راؤ انوار کے مشکوک مقابلوں کو قرار دیا تھا۔ایم کیو ایم کے اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد راؤ انوار ایم کیو ایم پر وار کرتے رہے، 2015 میں انھوں نے متحدہ قومی موومنٹ پر بھارتی خفیہ ادارے را سے روابط رکھنے کا الزام عائد کیا، انہوں نے یہ الزامات دو ملزمان طاہر لمبا اور جنید کے بیانات کی بنیاد پر عاید کیے تھے اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ایم کیو ایم پر پابندی عائد کی جائے۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے ان الزامات پر ناراضی کا اظہار کیا جس کے بعد راؤ انوار کو عہدے سے ہٹادیا گیا لیکن یہ معطلی عارضی رہی۔2016 میں راؤ انوار کو آخری بار اس وقت معطل کیا گیا تھا جب انہوں نے ایم کیو ایم کے پارلیمانی رہنما خواجہ اظہار الحسن کو گرفتار کیا، جس پر وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے انہیں معطل کرنے کے احکامات جاری کیے تاہم چند ماہ بعد وہ دوبارہ اسی منصب پر بحال ہوئے۔کراچی کے میئر وسیم اختر کو بھی راؤ انوار نے ہی گرفتار کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ وہ متعدد مقدمات میں مطلوب ہیں، ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار انہیں پیپلز پارٹی کی قیادت کا خاص الخاص قرار دے چکے ہیں، جبکہ مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق سینیٹر نہال ہاشمی نے بلدیاتی انتخابات میں الزام عائد کیا تھا کہ راؤ انوار نے ان کے لوگوں کو منحرف کرکے پیپلز پارٹی کے ضلعی چیئرمین کو ووٹ کرائے۔ سیاسی رہنماؤں کے الزامات میں صداقت ہے یا نہیں یہ ثابت کرنا مشکل ہے تاہم 2015 کی عیدالضحیٰ پر جیو نیوز نے ایک خبر نشر کی جس میں بتایا گیا کہ راؤ انوار نے زرداری ہاؤس میں سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ عید نماز ادا کی، بعض تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ راؤ پاکستان ریاست کے طاقتور حلقوں کے بھی نور نظر ہیں۔سندھ ہائی کورٹ اور پولیس محکمے میں راؤ انوار کے خلاف لوگوں کو ہراساں کرکے زمینوں پر قبضے کرنے کی شکایات سامنے آتی رہی ہیں، عدالت میں پیش نہ ہونے پر ان کے کئی بار وارنٹ بھی جاری ہوچکے ہیں، اس صورتحال میں وہ عدالت میں پیش ہوکر یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ ان کی زندگی کو خطرہ ہے لہٰذا انہیں حاضری سے استثنیٰ دیا جائے۔ایک سابق ایس پی نیاز کھوسو نے راؤ انوار کے خلاف ناجائز طریقے سے اثاثے بنانے اور بیرون ملک ملکیت منتقل کرنے کے الزام میں درخواست دائر کر رکھی ہے، جس کی سماعت نوٹس تک ہی محدود رہی ہے۔اسی طرح ان کے خلاف ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ملیر ون کے پاس ان انکوائری التواء کا شکار ہے جو اورنگی ٹاؤن میں رہائش پذیر 2ایسے افرا د کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بارے میں ہے جن کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگی ہوئیں تھیں۔