روپے کی قدر میں کمی سے معیشت بھنور سے نکل آئے گی؟

443

دسمبر 2017ء کے دوسرے ہفتے میں روپے کی قدر میں 5 فی صد کمی کے بعد کھلی مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی خرید و فروخت 112 روپے میں جاری ہے، آئندہ کا معلوم نہیں جب کہ اسٹیٹ بینک کے مطابق انٹر بینک میں ڈالر کا نرخ 110 اور 111 روپے کے درمیان چل رہا ہے، اس طرح ایکسچینج ریٹ پر جو عرصے سے دباؤ تھا اور مختلف حلقوں کی جانب سے روپے کی قدر میں کمی کا جو مطالبہ کیا جارہا تھا اس دباؤ میں کمی آئی ہے اور آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ پوسٹ مانیٹرنگ مذاکرات میں حکومت کے اس اقدام پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ جب کہ دوسری طرف مالی سال 2017-18ء کی پہلی ششماہی میں پاکستانی برآمدات میں 12 فی صد اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود معیشت دانوں کے نزدیک سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آنے والے وقت میں کیا پاکستانی معیشت مشکلات سے نکل پائے گی اور حکومت کو معاشی میدان میں اطمینان کا سانس ملے گا اور اسی کے ساتھ ساتھ حکومت کے مقابل اپوزیشن جماعتیں بھی پاور شو کے آخری راؤنڈ کے لیے کمر بستہ نظر آتی ہیں۔ سیاسی غیر یقینی اور عدم استحکام کی اس فضا میں سی پیک کے منصوبوں پر بھی غیر یقینی کے بادل چھائے ہوئے نظر آتے ہیں کیوں کہ باوجود اس کے کہ سی پیک کے معاملے پر پاکستان میں رائے ملی جلی نظر آتی ہے لیکن اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اس سے متعلقہ منصوبوں کو کامیاب ہونا چاہیے۔
پاکستان کے حوالے سے روپے کی قدر میں کمی کے فوائد اور نقصانات پر معاشی ماہرین کی رائے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ روپیہ سستا ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی مارکیٹ میں برآمدات سستی ہوجائیں گی اور اس طرح برآمدات کے بڑھنے سے امریکی ڈالروں کا بہاؤ پاکستان کی طرف ہوجائے گا اور اس طرح کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جو اس وقت 6 ارب ڈالر ہوگیا ہے وہ مسئلہ حل ہو جائے گا ساتھ ساتھ تجارتی خسارہ پہلی ششماہی میں 20 ارب ڈالر کی حد پار کر گیا ہے اس میں کمی آجائے گی غرضیکہ بیرونی شعبہ دباؤ سے آزاد ہوجائے گا۔ اس کے برخلاف دوسری رائے یہ ہے کہ روپے کی قدر میں کمی سے پاکستان آنے والی درآمدات مہنگی ہوگئی ہیں اور ان درآمدات میں وہ خام مال بھی شامل ہے جو برآمدات کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔ چناں چہ خام مال کے مہنگا ہونے کی وجہ سے برآمدات کی پیداواری لاگت بڑھ جائے گی اور اس طرح برآمدات سستا ہونے کا اثر زائل ہوجائے گا۔
دوسری طرف روپے کی قدر میں کمی کے باعث درآمدات کے نرخ بڑھنے کے باعث ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہوجاتا ہے اس کے علاوہ بیرونی قرضوں کی مالیت میں راتوں رات تقریباً 500 ارب کا اضافہ ہوجاتا ہے، اس سے صورت حال واضح ہوجاتی ہے کہ قدر میں کمی کا نسخے میں سب کچھ اچھا نہیں ہے۔ اس کے علاوہ آنے والے وقت میں پاکستان کو بیرونی واجبات کی مد میں سالانہ 4.5 ارب ڈالر ادا کرنے ہیں، مزید یہ کہ چین کی طرف سے مختلف کمپنیوں میں جو سرمایہ کاری ہورہی ہے تو یہ کمپنیاں ایک سال بعد اپنا منافع چین بھیجنا شروع کردیں گی۔ اس کے لیے بھی زرمبادلہ کی طرف ضرورت ہوگی، ویسے تو اسٹیٹ بینک نے چینی کرنسی میں سرمایہ کاری اور بیرونی تجارت کی اجازت دے دی ہے اس سے یہ امکان ہے کہ ملک میں ڈالر کی طلب میں کمی ہوجائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اوپیک (OPEC) کے رکن ممالک نے سال 2018ء میں آئل کی پیداوار میں کنٹرول کی پالیسی بنائی ہے، اس کے نتیجے میں اگر آئل کے نرخ بڑھتے ہیں تو درآمدی بل آسمان پر پہنچ جائے گا اور اس کی ادائیگی کس طرح ہوگی۔
اس لیے بیرونی محاذ پر ایک مربوط پالیسی کی شدید ضرورت ہے، جس کا پہلا نکتہ یہ ہونا چاہیے کہ بیرونی سرمایہ کاروں کو ملک میں کاروبار کرنے کے لیے فضا ساز گار بنائی جائے، اس وقت پاکستان میں سالانہ بیرونی سرمایہ کاری کا حجم صرف 2.5 ارب ڈالر ہے اس کو 10 ارب ڈالر تک پہنچنا چاہیے۔ پاکستان میں چین، امریکا اور یورپی ممالک سے تھوڑی بہت سرمایہ کاری ہورہی ہے، عرب ممالک اور ان سے متعلقہ کمپنیوں کو اس طرف راغب کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرا نکتہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ترسیلات زر کا ہے اس عمل کو آسان اور بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ ترسیلات زر پاکستان میں زرمبادلہ کی آمد کا اہم ذریعہ ہیں۔ تیسرا نکتہ ایمنسٹی اسکیم کا ہے حکومت کی موجودہ مالیاتی ٹیم نے اس اسکیم کے اجرا کا عندیہ دیا ہے، اگر یہ اسکیم بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ شروع کی جاتی ہے تو اس سے حکومت کو 10 ارب ڈالر حاصل ہوسکتے ہیں اور بیرونی شعبے پر دباؤ کم ہوسکتا ہے۔ مالی سال 2017-18 کے آخری چھ ماہ باقی ہیں جس میں موجودہ حکومتوں کی تحلیل، نگراں حکومت کا قیام اور اور انتخابات کا انعقاد شامل ہیں ان تمام اتار چڑھاؤ سے معیشت کی کشتی کتنے ہچکولے کھائے گی یہ وقت ہی بتائے گا۔