آہ۔۔۔ صفدر علی چودھری

464

موت کا سیلاب ہے کہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے‘ یہ قانون فطرت ہے کہ ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے‘ جو دنیا میں آیا ہے ایک روز اسے واپس بھی جانا ہے‘ اس پر ہمارا ایمان بھی ہے اور یقین بھی‘ ہر روز دنیا میں کوئی آتا ہے اور کوئی دنیا سے رخصت ہورہا ہے اور قبرستان تیزی سے آباد ہورہے ہیں صفدر علی چودھری بھی رخصت ہوئے‘ مرحوم طویل عرصہ سے بیمار چلے آرہے تھے ذیابیطس کی بیماری نے انہیں گھیر رکھا تھا‘ چودھری صاحب سے محبت کا ایک رشتہ تھا‘ جب بھی ملتے شفقت کرتے‘ اسلام آباد آتے تو دفتر جسارت ضرور آیا کرتے تھے وہ بہت ہی سادہ طبیعت کے مالک تھے‘ ان میں کوئی پھوں پھاں نہیں تھی‘ جس سے بھی ملتے‘ مسکرا کر ملتے‘ اور اسے اپنا بنالیتے‘ پنجابی میں حال چال معلوم کرتے‘ گفتگو میں کسی قسم کا مصنوعی پن نہیں تھا اور نہ ان کی ذات میں کوئی مصنوعی پن تھا‘ ہر ملنے والا ان کے اخلاص کا معترف ہوا کرتا تھا۔ ایک عرصہ ہوا تھا کہ بیماری نے زور پکڑا تو سفر کے قابل نہیں رہے نواز رضا نے متعدد بار پروگرام بنایا کہ چودھری صاحب کی تیمار داری کے لیے جانا ہے لیکن دنیاوی مصروفیت کا جن نہیں چھوڑ رہا تھا۔
جماعت اسلامی کے وہ نہایت ہی مخلص کارکن تھے اور ایک مشکل وقت میں انہوں نے اطلاعات و نشریات کی ذمے داری نبھائی‘ جب وہ ناظم نشرواشاعت تھے تو اس دور میں ملک میں سیاست اور صحافت دونوں لیفٹ اور رائٹ میں تقسیم تھی۔ جماعت اسلامی کی قیادت کی سرگرمیاں‘ تنظیمی خبریں دائیں اور بائیں بازو دونوں اخبارات کے لیے شجر ممنوع تھیں اس زمانے میں صرف ایک جسارت تھا کہ جس میں جماعت اسلامی کی تنظیمی خبر شائع ہوا کرتی تھی لیکن صفدر چودھری بھی ایک مضبوط اعصاب کے مالک تھے ان کی دوستی محض خبر شائع کرانے کی حد تک نہیں تھی‘ نہ انہوں نے اسے تعلق اور دوستی کی بنیاد بنایا‘ جماعت اسلامی کی خبر شائع نہ ہونے پر کبھی گلہ شکوہ نہیں کیا‘ یوں کہنا چاہیے کہ شکوہ کرنا ان کا شیوہ ہی نہیں تھا‘ اگر وہ شکوہ کرتے تو ایک نہیں کئی کتابیں لکھ دیتے‘ لیکن کبھی حرف شکایت ان کی زبان پر نہیں آیا‘ ایک وقت وہ بھی تھا کہ لوگ کریدتے تھے‘ لیکن مجال ہے کہ کبھی ان کی زبان سے کسی کے بارے میں کوئی نا مناسب بات نکلی ہو۔ ان کی بہت سی خوبیوں میں ایک خوبی رابطہ تھا‘ مسلسل رابطہ اور ذاتی تعلق قائم رکھنے کا کوئی ان کا ثانی نہیں تھا اسی تعلق اور مسلسل رابطے کے نتیجے میں ایک روز امروز‘ جو لیفٹ کا اخبار تھا‘ میں جماعت اسلامی کی خبر شائع ہونا شروع ہوگئی۔ لیفٹ اور رائٹ کی باقاعدہ نظریاتی جنگ کے اس دور میں بھی ان کے لیفٹ کے لوگوں کے ساتھ باہمی عزت و احترام کا تعلق تھا پروفیسر وارث میر کے ساتھ بھی ان کے تعلقات رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ حامد میر کی شادی میں وہ پیش پیش رہے بلکہ شادی کی بنیاد بھی انہی نے رکھی اس کی تفصیل اگر حامد میر خود لکھنا چاہیں اور مناسب سمجھیں تو ضرور لکھیں گے بس اتنا لکھنا کافی ہے کہ یونیورسٹی فیلوز کی یہ شادی صفدر چودھری کی ذاتی کوششوں سے ہوئی تھی۔
پاکستان قومی اتحاد اور اس کے بعد آئی جے آئی کے زمانے میں بھی وہ نشرو اشاعت کے ذمے دار تھے اپنے ذاتی تعلق کی وجہ سے وہ لیفٹ کے اخبار نویسوں اور غیرملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو آئی جے آئی کے جلسوں میں ساتھ لے جایا کرتے تھے آئی جے آئی کا ملتان میں جلسہ تھا اور سائیکل انتخابی نشان تھا‘ ملتان میں کارکن نعرہ لگا رہے تھے کہ کوکا کولا پیپسی‘ بے نظیر۔۔۔۔۔۔‘ بی بی سی کی نمائندہ بھی قائدین کے ساتھ ٹرک پر سوار تھی‘ اس نے پوچھا کہ یہ کارکن کیا کہہ رہے ہیں‘ اب چودھری صاحب اسے کیا بتاتے ہیں اور کس طرح ترجمہ کرتے‘ یہ نعرہ تو اپنے اندر ایک نفرت کا اظہار بھی تھا‘ چودھری صاحب نے اسے کہا کہ کارکن مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں سائیکل نہیں ٹیکسی چاہیے‘ بی بی سی کی نمائندہ نے کہا کہ نہیں‘ کارکن کچھ اور کہہ رہے ہیں‘ پھر ٹالنے کے لیے جواب دیا کہ گرمی ہے اس لیے پیپسی مانگ رہے ہیں‘ وہ نمائندہ بولی نہیں یہ بات نہیں ہے‘ چودھری صاحب نے کہا کہ اچھا پھر آپ خود ہی بتائیں کہ کارکن کیا کہہ رہے ہیں تو بی بی سی کی نمائندہ نے اس نعرے کا وہی ترجمہ کیا جو کارکنوں کے نعرے کا مطلب تھا‘
باقی صفحہ9پر
میاں منیر احمد
چودھری صاحب یہ واقعہ سناتے ہوئے بہت محظوظ ہوا کرتے تھے۔
مقبوضہ کشمیر کے رہنماء غنی لون کے صاحب زادے بلال غنی لون کی شادی امان اللہ خان کی صاحب زادی اسماء سے ہوئی تو نو بیاہتا جوڑا منصورہ بھی گیا‘ جہاں انہیں ناشتے کی دعوت دی گئی‘ اس ناشتے میں موجود ایک صاحب نے کہا کہ کچھ عرصہ کے بعد امریکا میں ایک بڑا واقعہ ہونے والا ہے کسی نے اس بات پر توجہ نہ دی اور سنی ان سنی کردی لیکن غالباً کچھ مہینوں کے بعد نائن الیون ہوا تو چودھری صاحب نے یہ واقعہ سنایا اور کہا کہ جب یہ بات ہوئی تو انہیں اس پر یقین نہیں تھا لیکن اب سوچتا ہوں کہ اس وقت یہ بات غور سے سننے کے لائق تھی‘ چودھری صاحب کی فیملی کا جہاد کشمیر سے بھی بہت تعلق رہا ہے اور اب بھی ہے‘ مظفر نعیم شہید کا تعلق اسی خاندان سے ہے‘ چودھری صاحب کی دین کے ساتھ مکمل شعور کے ساتھ نسبت اور گہری وابستگی کی وجہ سے ان کے صاحب زادے جہاد کشمیر میں شریک ہوئے‘ شہادت کا درجہ پایا‘ اور اللہ کے ہاں سرخرو ٹھیرے۔ جب تک صحت نے اجازت دی اس وقت تک وہ کشمیر سے متعلق ہر چھوٹے بڑے پروگرام میں لازمی شریک ہوا کرتے تھے لیکن بیماری نے زور پکڑا تو بستر سے چمٹ کر رہ گئے اور اسی حالت میں اپنے ربّ سے جا ملے‘ اور یوں قبرستان میں ایک اور قبر سج گئی۔