دہشت گردی ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اس کی شکلیں اور صورتیں جدا، اس کے محرک اور اسباب الگ اس کے علم بردار دنیا کی تمام تہذیبوں اور مذاہب وممالک سے تعلق رکھتے ہیں مگر المیہ یہ کہ گزشتہ دو عشروں سے یہ اصطلاح مسلمانوں کے لیے مختص کر دی گئی ہے۔ ایسی فضاء بنا دی گئی کہ دہشت گردی کا تصور ذہن میں آتے ہی اسلام کی شبیہہ اور مسلمان کا سراپا اور خاکہ ذہن میں بنتا ہے۔ ’’اسلامک ٹیررازم‘‘ تو بین الاقوامی میڈیا کی سب سے محبوب اصطلاح رہی ہے۔ جب کوئی مسلمان پُرتشدد واردات کر گزرتا ہے تو اس پر بلا سوچے سمجھے دہشت گردی اور دہشت گرد کا لیبل چسپاں ہوتا ہے۔ دنیا کا میڈیا اس پر جھاگ اُگلنے لگتا ہے اور جب اسی سے ملتا جلتا فعل کسی دوسرے مذہب کے پیروکار سے سرزد ہوتا ہے تو اسے ایک فرد کی کارروائی قرار دیا جاتا ہے۔ اس شخص کا مذہبی تعلق اور تہذیبی پس منظر واردات کی خبر کا لازمی جزو قرار نہیں پاتا۔ ان دوہرے رویوں نے مسلمانوں کو دیوار سے لگائے رکھا ہے جو ایک پوری تہذیب کو مجرموں کے کٹہرے میں لاکھڑا کرنے کے مترادف تھا۔
گزشتہ دو دہائیوں سے الزامات، اتہام اور دشنام کے تمام تیروں کا رخ اسلام اور مسلمانوں کی طرف رہا۔ اسلام کے بعد پاکستان کو دہشت گردی کی علامت بنا کر دنیا میں پیش کیا گیا۔ عین اس وقت جب عراق اور افغانستان خون میں لتھڑے ہوئے اور بدترین حالات کا شکار تھے تو امریکا کے ایک شہرہ آفاق میگزین کی ٹائٹل اسٹوری میں پاکستان کو دنیا کا خطرناک ترین ملک بنا کر پیش کیا گیا۔ اس ملک کے سول اسٹرکچر کے بکھرنے کی پیش گوئیاں کی گئیں۔ اس کے ایٹمی ہتھیاروں کے جیب کتروں کے ہاتھ لگنے کی افسانہ طرازی کی گئی۔ یہ منظر بڑی قربانیوں اور جدوجہد کے ساتھ بدلنے لگا ہے مگر خطرات کے بادل ابھی بھی پوری طرح چھٹنے نہیں پائے۔ ایسے میں ایک دلچسپ خبر سامنے آئی ہے جس کے مطابق صدر مملکت ممنون حسین نے اسلام آباد انٹرنیشنل یونیورسٹی کے زیر اہتمام دہشت گردی اور انتہا پسندی کے حوالے متفقہ قومی بیانیے پر مشتمل کتاب ’’پیغام پاکستان‘‘ کے اجراء کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں تشکیل پانے والا آئین پاکستان ہی بنیادی بیانیہ ہے جب کہ علماء کا فتویٰ اس کی تائید کرتا ہے۔ اس سے دہشت گردی اور انتہا پسندی پر قابو پانے میں مدد ملے کی۔ کتاب میں اٹھارہ سو علما کا فتویٰ شامل ہے جس میں خود کش حملوں کو فساد فی الارض قرار دیا گیا ہے۔ خود کش حملوں کو حرام قرار دینے والے اس فتوے کو ریاستی اداروں کی تائید بھی حاصل ہے۔ خود کش حملوں کے خلاف علما کی طرف سے انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں ماضی میں بھی فتوے جاری ہوئے ہیں مگر اس کا زیادہ اثر نہیں ہوا۔ اس بار ریاست کی تائید اور حمایت سے علماء کرام نے باضابطہ اپنا بیانیہ جاری کیا اور اسے ریاست اور سرکار کی بھرپور تائید ملنے سے زیادہ اہمیت بھی حاصل ہوگئی۔
علماء کا فتویٰ بلاشبہ پاکستان میں پنپنے والی دہشت گردی اور انتہا پسندی کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ ثابت ہوگا۔ بالخصوص وفاق المدارس کے علماء کے تعاون اور معاونت اس فتوے کی اہمیت کو مزید دوچند کر رہی ہے کیوں کہ پاکستان میں خود کش حملوں کے ڈانڈے دیوبندی مکتبۂ فکر سے جا ملتے تھے۔ اسی لیے پرویز مشرف کے دور میں صوفی اسلام کو سرکاری چھتر چھائے میں متعارف کرانے کی کوشش کی گئی تھی مگر ممتاز قادری کے ہاتھوں گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل نے اس فلم کو فلاپ کر دیا۔ وفاق المدارس نے بحیثیت مجموعی پاکستان میں خود کش حملوں اور شدت پسندانہ رویوں کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ لال مسجد بحران میں وفاق المدارس کے علماء نے اپنے تئیں معاملہ ہر ممکن حد تک سلجھانے کی کوشش کی تھی مگر ان کی کوششیں اکارت چلی گئیں اور اس کے بعد پاکستان میں خود کش حملوں کا سیلاب سا آگیا تھا۔ اب قومی بیانیہ سامنے آنے کے بعد حالات میں بہتری کی امید تو ہے مگر بات وہی ہے کہ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے۔ مغربی قوتیں اپنے مقاصد اور پوشیدہ مفاد کی تکمیل کے لیے مسلمان نوجوانوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ داعش نام کی تنظیم اس کا واضح ثبوت ہے۔ اس لیے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فتاویٰ کے ساتھ ساتھ مغربی ملکوں کو اپنی ذہنی شیطانیت کو بھی ختم کرنا ہوگا۔ ٹیٹو بنے جسموں والے خود کش کسی فتوے کے پابند نہیں ہوتے بلکہ مخصوص مقاصد کے لیے تیار کیے گئے ربوٹس نما انسان ہوتے ہیں۔
علمائے کرام کا فتویٰ بظاہر پاکستان کے حالات کے تناظر میں ہے۔ جس کی وضاحت صدر مملکت نے بھی کسی حد تک یہ کہتے ہوئے کی ہے کہ پاکستان ایک اسلامی دستور کے تحت چلنے والی ریاست ہے جس میں خود کش حملوں اور دہشت گردی کا جواز نہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کی دم توڑتی ہوئی موجودہ لہر کی تین بڑی وجوہ ہیں۔ اوّل یہ ہے کہ افغان جہاد کے خاتمے کے بعد سوسائٹی کی بے ہنگم عسکریت پسندی کو روکا نہ جا سکا۔ عسکریت پسندی کے اس وسیع عمل کے بطن سے دہشت گردوں نے جنم لیا۔ جو بندوق ایک مخصوص سمت کی جانب تنی تھی اس میں سے کچھ بندوقوں کا رخ تبدیل ہوگیا۔ دوسرا یہ کہ اس عسکریت پسندی کے ایک حصے کو جو پاکستان کی حکومتی پالیسیوں سے نالاں ہورہا تھا بھارت اور امریکا نے کھیل کو پاکستان ہی پر اُلٹنے کے لیے استعمال کیا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے موجودہ مشیر برائے قومی سلامتی اجیت دوول کی یوٹیوب پر دستیاب تقریر میں اس حکمت عملی کو اختیار کرنے کا برملا اظہار کیا ہے۔ تیسرا یہ کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں امریکی اتحاد کا حصہ بننا اور امریکا اقدامات اور کارروائیوں کی ذمے داری قبول کرکے ایک طبقے کو یہ کہنے کا موقع دیا کہ پاکستان اور امریکا ایک سکے کے دورخ ہیں۔ لال مسجد بحران کو حل کرنے کی ناقص حکمت عملی نے اس تاثر اور ذہنیت کو تقویت پہنچائی۔ صاف لگ رہا تھا یہ بحران بھی پاکستان کو تشدد کے اندھے کنویں میں دھکیلنے کی غرض سے شروع کیا ہے۔ اس طرح پاکستان میں دہشت گردی کی وجوہ کی مقامی، نظریاتی اور بین الاقوامی جہتیں ہیں۔ اب جب کہ ریاست پاکستان خود کو امریکی جنگ سے الگ کرتی چلی جا رہی ہے تو امریکا اور پاکستان کو ایک جیسا قرار دینے والوں کا موقف کمزور ہونا یقینی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فتوؤں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر اس کے لیے زمینی صورت حال کا بدلنا بھی ناگزیر ہے۔ ریاست کا قومی بیانیہ بجا مگر ریاست کو بھی اپنی اداؤں اور پالیسیوں پر غور کرنا چاہیے۔ ان پالیسیوں سے گلو خلاصی کرنی چاہیے جنہوں نے ریاست کی چولیں ہلا کر رکھ دیں تھیں۔