لاکھوں ٹن کچرا اٹھانا ضروری ہے

273

کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے بعد سے صورتحال بڑی عجیب و غریب ہے، پہلے کئی ماہ میئر کے بغیر گزارہ کیا گیا پھر میئر صاحب تشریف لائے تو ان کی زبان پر پہلے روز سے جو شکوہ ہے وہ یہ ہے کہ اختیارات نہیں ہیں اب کوئی دو سال ہونے کو ہیں اختیارات کا مسئلہ چل رہا ہے۔ جو چیز سب سے زیادہ شہریوں کے لیے پریشان کن تھی وہ پانی، سڑکیں اور کچرا، حکومت سندھ نے چند سڑکیں اپنے ذمے لے لیں۔ یعنی ان کے فنڈز کا اختیار اپنے پاس رکھ لیا اور ان کی بنیاد پر کراچی کو چمکانے اور نیا بنانے کے دعوے ہورہے ہیں۔ پانی کے بارے میں سب خاموش ہیں۔ شہریوں کو پانی مل ہی نہیں رہا اور جو پانی آتا ہے اس میں گٹر کا پانی بھی ہوتا ہے اور دنیا جہاں کے جراثیم بھی ہوتے ہیں۔ عدالتیں نوٹس لے لے کر تھک گئی ہیں لیکن پانی کا نظام ہے کہ ٹھیک ہوکر نہیں دے رہا۔ رہ گیاکچرا تو اس کے لیے اختیار سے زیادہ ارادے کی ضرورت ہے اور یہ ارادہ حکومت اور بلدیہ کراچی کسی کے پاس نہیں۔ کیونکہ کچرا اٹھانے اور ٹھکانے لگانے میں پیسے نہیں ہیں تو پھر ایسا سوکھا کام کون کرے جس میں پیسے نہیں ملتے۔ سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ ہے تو حکومت سندھ کے کنٹرول میں لیکن سب نے کچرا اٹھانے کا ملبہ بھی بلدیہ کراچی پر ڈال رکھا ہے۔ اس شہر میں روزانہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 12 ہزار ٹن کچرا ڈالا جاتا ہے۔سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے جو بھی وسائل ہوں بلدیہ اور صوبائی حکومت کا جو بھی عملہ ہو وہ سب مل کر بھی صرف 5 ہزار ٹن کچراٹھکانے لگاسکتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہورہاہے کہ روزانہ 7 ہزار ٹن کچرا شہر میں رہ جاتا ہے جب روزانہ 7 ہزار ٹن کچرا شہر میں رہ جائے تو پانچ چھ برس میں شہر کا کیا حال ہوگا یہ بتانے کے لیے کسی کو شہر کے مختلف علاقوں کا سروے کرنے کی کوئی حاجت نہیں ہر طرف کچرا ہی کچرا ہے۔ بلدیہ کے پاس اختیارات نہیں۔ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کا عملہ کم ہے اور شہر میں کچرا ہی کچرا ہے اب تو لوگ کہتے ہیں کہ کراچی نہ کہو کچراچی کہو۔ ایک بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ کہیں یہ بحران جان بوجھ کر تو نہیں پیدا اور مضبوط کیا جارہاہے تاکہ آگے چل کر کسی مخصوص ادارے یا افراد کو کچراٹھکانے لگانے کے حوالے سے کوئی ٹھیکا دیا جائے۔ یہ تو وقت آنے پر پتا چلے گا لیکن اس وقت تک اس کی روک تھام کا وقت گزرچکا ہوگا۔ فی الوقت تو مسئلہ یہ ہے کہ کراچی میں بڑھتے ہوئے کچرے کی وجہ سے بیماریوں میں اضافہ ہورہاہے۔ صحت کے مسائل ہر شعبے کو متاثر کررہے ہیں۔ اسپتالوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے دواؤں کی دستیابی الگ مسئلہ ہے اور کچرے کے ساتھ ساتھ سیوریج اور پانی کی ٹوٹی ہوئی لائنیں بھی ایک عذاب ہیں اس کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں پر بھی اثر پڑا ہے حکومت سڑکوں کی تزئین و آرائش کو کراچی کی تزئین نہ سمجھے لاکھوں ٹن کچرا اٹھائے بغیر پانچ چھ سڑکیں بنانے سے کراچی کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔