امریکا ساتھ نہ چلے تو اچھا ہے

477

امریکا نے ایک بار پھر دھمکی دی ہے کہ پاکستان کے ساتھ مزید نہیں چل سکتے۔ اس مرتبہ امریکی نائب وزیر خارجہ نے لب کشائی کی ہے۔ ان کا کہناہے کہ طالبان مسلح کارروائی سے جنگ نہیں جیت سکتے۔ پرانا بیان یا الزام پھر عاید کہاکہ پاکستان نے دہشت گرد تنظیم کے ارکان کو پناہ دے رکھی ہے۔ یہ گفتگو یا الزامات امریکی نائب وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک خصوصی اجلاس کے دوران دہرائے جس پر پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی نے امریکی مندوب کو آڑے ہاتھوں لیا اور ان کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے امریکا کو یاد دلایا کہ وہ بھی 18 برس سے افغانستان میں طاقت استعمال کررہاہے لیکن اسے کامیابی نہیں ہوئی۔ کابل حکومت کا کنٹرول ملک کے 40 فی صد حصے پر نہیں ہے یہ جواب انہیں نہ دیا جاتا تب بھی امریکیوں کو اچھی طرح علم ہے کہ طاقت کے استعمال سے وہ کوئی جنگ نہیں جیت سکتے۔ افغانستان میں 18 برس سے وہ سوا ئے طاقت کے استعمال کے اور کیا کررہے ہیں۔ امریکی نائب وزیر خارجہ نے طالبان کے بارے میں تو کہہ دیا ہے کہ طالبان مسلح کارروائیوں کے ذریعے جنگ نہیں جیت سکتے لیکن وہ یہ مشورہ اپنے حکمرانوں کو بھی دیں کہ طاقت کے استعمال سے جنگ نہیں جیت سکتے۔ امریکی قیادت عراق و افغانستان میں یہ تجربہ خوب اچھی طرح کرچکی ہے۔ ویتنام کا تجربہ تو پرانا ہوچکا ہے اس لیے تازہ تجربات کی بنیاد پر فیصلہ کرلیں۔ امریکی مندوب کا غم و غصہ غالباً کابل کے ہوٹل سے تعلق رکھتا ہوگا یا پھر ممکن ہے یہ الگ واقعہ ہو۔ لیکن امریکی اپنے معاملات نہایت منصوبہ بند طریقے سے چلاتے ہیں۔ پہلے کوئی واقعہ ہوتا ہے پھر رد عمل اور پھر طے شدہ الزامات۔ 9/11 کے بعد کی پوری صورتحال سامنے ہے۔لہٰذا ممکن ہے یہ الزامات بھی کابل ہوٹل کے تناظر میں دہرائے گئے۔ لیکن امریکا کے یہ ذمے داران بھول گئے ہیں کہ امریکا پاکستان کے پاس مدد مانگنے آیا تھا اور پاکستان نے مدد کی تھی۔ اس مدد اور تعاون کے دوران پاکستانی حکمرانوں نے ملک کی غیرت کے سودے کر ڈالے اور آج امریکا بہادر کہتا ہے کہ اب پاکستان کے ساتھ مزید نہیں چل سکتے۔ پاکستان کے لیے تو اس سے اچھی کوئی بات نہیں ہوگی کہ امریکا اس کے ساتھ نہ چلے۔ جب سے امریکا پاکستان کے ساتھ چل رہا ہے یا پاکستان کو اپنے ساتھ چلارہاہے پاکستان مشکل میں ہے۔ دھماکے، بد امنی، دہشت گردی، قتل و غارت پاکستان کے ساتھ لگ گئے ہیں۔ معاشی بد حالی الگ ہے، بے حس حکمران اس م لک کی قسمت بن گئے ہیں۔ پاکستانی عوام تو کہتے یہی ہیں کہ پاکستانی حکمران امریکی جنگ سے جلد از جلد جان چھڑالے یہ تو اب پاکستانی حکمرانوں کو کہنا چاہیے کہ اب ہم امریکا کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ لیکن سوال یہی ہے کہ یہ بات کہے گا کون۔ پاکستانی وزیراعظم؟ وہ تو صرف میاں نواز شریف کے تحفظ کی جنگ لڑرہے ہیں۔ کبھی کبھی اپنے مستقبل کے سہانے خواب بھی دیکھتے ہیں تو کیا شہباز شریف یہ بات کہیں گے۔ وہ بھی ایسا کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ بلکہ وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور آرمی چیف، کوئی یہ بات نہیں کہہ سکتا، تو پھر امریکا کی سنتے رہیں۔امریکی نائب وزیر خارجہ کا کہناہے کہ پاکستان نے دہشت گرد تنظیم کے ارکان کو پناہ دے رکھی ہے۔ پاکستانی مندوب نے اس کا جواب کیوں نہیں دیا کہ پاکستان میں امریکی دہشت گرد تنظیم بلیک واٹر کے سیکڑوں دہشت گرد پناہ گزیں ہیں، ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جائے۔ یہ حقانی نیٹ ورک کی رٹ کیوں لگارہے ہیں۔ بلیک واٹر نیٹ ورک کا خاتمہ کیوں نہیں کیا جاتا۔ صرف بلیک واٹر نہیں امریکا کی شہ پر بھارت بھی افغانستان کے راستے پاکستان میں دہشت گردی کررہاہے اور امریکا صرف پاکستان میں یہ کام نہیں کررہا بلکہ بیک وقت 13 ممالک میں جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ کیا امریکا پاکستان کے ساتھ چلنا چھوڑ کر ان 13 ممالک میں بھی جنگ بند کرے گا۔ معاملہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں حکمرانوں نے امریکا کو پالن ہار سمجھ لیا ہے اس سے اس قدر خوفزدہ رہتے ہیں کہ خارجہ امور تو دور کی بات ہے بجٹ سے لے کر اندرون ملک تقرر اور تبادلے تک کرتے وقت امریکا کی خفگی اور خوشی کا خیال رکھتے ہیں اور امریکا ہے کہ کبھی خوش نہیں ہوتا۔ پاکستان نے یہ تو مشورہ دیا ہے کہ امریکا اندرونی چیلنجز پر توجہ دے۔ ان اندرونی چیلنجز میں صدر ٹرمپ سب سے بڑا چیلنج ہیں۔ جس روز امریکا نے ٹرمپ پر قابو پالیا اس کے بہت سے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔