صنعتی و کمرشل درآمدکنندگان کے درمیان تفریق ختم کیا جائے، میاں زاہد

503

صنعتی و کمرشل امپورٹرز کےلئے ٹیکسوں کی شرح میں فرق واضح نا انصافی ہے
برآمدی صنعتوں کی پیداواری میں کمرشل امپورٹرز ریڑھ کی ہڈی کا کام کرتے ہیں۔میاں زاہد حسین

کراچی ۔پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چےئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کمرشل اور صنعتی درآمدکنندگان کے درمیان ٹیکسوں کی شرح میں فرق کے دیرینہ مسئلے کو فوری طور پر حل کرنے کیلئے حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اورمشیر خزانہ مفتاح اسما عیل،وزیر مملکت برائے خزانہ و معا شی امور رانا محمد افضل خان اور چیئرمین ایف بی آرطارق محمود پاشا کمرشل امپورٹرز کے درمیان تفریق ختم کرکے انکم ٹیکس و سیلز ٹیکس کی یکساں شرح عائد کرتے ہوئے تمام امپورٹرز کیلئے برابری کی سطح پر کاروباری مواقع فراہم کریں۔ میاں زاہد حسین نے بز نس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ معاشی و صنعتی ترقی میں برآمدی صنعتوں کا اہم کردار ہوتا ہے اور برآمدی صنعتوں کی بلا رکاوٹ پیداواری سرگرمیاں جاری رکھنے میں کمرشل امپورٹرز ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ خام مال کی درآمد پر کمرشل امپورٹرز کیلئے زائد ٹیکس غیر منصفانہ ہے جسکو ختم کرکے یکساںٹیکس لاگو کئے جائیں۔صنعتوں کو طلب کے مطابق خام مال کی فراہمی کے حوالے سے کمرشل امپورٹرز کی معاشی کاوشوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ انہوں نے اس حوالے سے مزید کہا کہ کمرشل امپورٹرز 6 فیصد ایڈوانس انکم ٹیکس دیتے ہیں جوکہ قابل واپسی نہیں ہوتا ،اسکے برعکس صنعتیںساڑھے 5فیصد ایڈوانس انکم ٹیکس جمع کرواتی ہیں جو کہ قابلِ واپسی ہوتا ہے۔ اسی طرح کمرشل امپورٹرز 17فیصد سیلز ٹیکس کے علاوہ درآمدی سطح پر 3فیصد ویلیو ایڈیشن ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ صنعتیں ویلیو ایڈیشن کی مد میں کوئی ایڈوانس ٹیکس جمع نہیں کرواتیں۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ کمرشل امپورٹرزکو نان رجسٹرڈ افراد کو مال کی فروخت پر اضافی سےلزٹیکس کی مد میں مجموعی رقم کا 2فیصد ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح کمرشل امپورٹرز مجموعی طور پر 11فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔ اسکے برعکس صنعتیں صرف ساڑھے پانچ فیصد ٹیکس ادا کرتی ہیں جو کہ ایڈجسٹیبل ہوتا ہے۔ اضافی ٹیکسوں کی وجہ سے کمرشل درآمدکنندگان کیلئے درآمدی سرگرمیاں جاری رکھنا دشوار ہوگیا ہے کیونکہ کچھ صنعتکار پیداوار کی آڑمیں رعایتی ٹیکسوں کا فائدہ اٹھا کر طلب سے کئی گنا زائد خام مال درآمد کرکے مال مقامی مارکیٹوں میں سستے داموں فروخت کردیتے ہیں، جس سے ّ–