جائیدادوں کی ویلوایشن میں سندھ کے ساتھ امتیازی سلوک کیاجارہا ہے

505

ترامیم کے بعد ویلیو ایشن ریٹس میں کچھ کمی کی گئی ہے مگر تاحال امتیازی سلوک برقرار ہے
SROs مےں شدید نوعیت کی بے ضابطگیاں ہےں، جن کی نشاندھی بےحد ضروری ہے اور ان پر فوری توجہ کی ضرورت ہے
سائیٹ اےسو سی اےشن آف انڈسٹری کے صدر محمد جاوےد بلوانی نے وزیر اعظم پاکستان کے مشیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل کو اےک خط ارسال کیا ہے جس مےں انہوں نے صوبہ سندھ مےں غےر منقولہ جائےدادوں کی وےلیو اےشن پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ جائےدادوں کی وےلیو اےشن مےں صوبہ سندھ کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا ہے کیونکہ تعمیر شدہ جائےداد کی قیمتےں سندھ کے بڑے شہروں کراچی، حےدرآباد اور سکھر مےں مقرر کی گئی ہےں جبکہ کسی اور صوبے کے کسی بھی شہر مےں تعمیر شدہ جائےداد کی قیمتےں مقرر نہےں کی گئی ہےں۔ خط میں جاوید بلوانی نے حوالہ دیا کہ فیڈرل بورڈ آف ریوینیو نے 2اگست 2016کے ایس آر او میں تبدیلی کرتے ہوئے مورخہ 10جنوری 2018کو نیا ایس آر او جاری کیا جس میں کچھ ترامیم کے بعد ویلیو ایشن ریٹس میں کچھ کمی کی گئی ہے مگر تاحال امتیازی سلوک جاری رکھا گیا ہے اور کراچی انڈسٹرئل ایریا اور صوبہ سندھ میں ریٹس ذیادہ ہیں۔انہوں نے FBR کی جانب سے جاری کئے گئے SROs پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان SROs مےں شدید نوعیت کی بے ضابطگیاں ہےں، جن کی نشاندھی بےحد ضروری ہے اور ان پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
تعمیر شدہ ایریا پرفی مربع فٹ ویلیو صرف صوبہ سندھ میں لگائی گئی جو دیگر صوبوں میں نہیں اس طرح صوبہ سندھ سے امتیازی سلوک رو رکھا گیا ہے۔ کراچی مےں صنعتی پلاٹس کو کےٹگیری 1اور2مےں رکھا گیا ہے۔ انڈسٹرئیل تعمیر کیلئے کیٹگری 1کیلئے فی مربع فٹ ریٹ 1905روپے جبکہ کیٹگری 2کیلئے3000روپے ہیں ۔ اسی طرح کیٹگری 1 انڈسٹرئیل اوپن پلاٹ کے فی فربع گز ریٹ 9603روپے اور کیٹگری2کے ریٹ فی مربع گز8000روپے ہے جو امتیازی اور غیر منصفانہ ہیں،۔صنعتی پلاٹ پر اگر نئی تعمیرات کرائی جائےں تو فی مربع فٹ لاگت 800-1000روپے آتی ہے جس پر لوڈ بیئرنگ کپیسٹی 200پاﺅنڈ فی مربع فٹ ہوتی ہے جو غیر منصفانہ ہے۔انھوں نے حیرانگی کا اظہار کیا پرانی تعمیرات کا رےٹ300روپے مربع فٹ سے ذیادہ نہیں ہوتا جبکہ حکومت نے کیٹگری 1کیلئے1905روپے مربع فٹ اور کیٹگری 2کیلئے3000مربع فٹ جو کئی سو فیصد ذیادہ ہے۔
انھوں نے مطالبہ کیا کہ ان ریٹس کو فیئر مارکیٹ ویلیو کی مخصوص شرح پر فی مربع گز کے حساب سے کم کئے جائیں۔سب سے پہلی بے ضابطگی یہ ہے کہ حساب کتاب کا طریقہ کار، پےمائش کی اکائیاں ملک کے تمام شہروں کے لئے یکساں نہےں ہے۔ مثلاً سندھ کے شہروںکراچی، حےدرآباد اور سکھر مےں پےمائش مربع گز کے حساب سے ہے جبکہ پنجاب اور کے پی کے مےں مرلہ اور بلوچستان مےں مربع فٹ مےں ہے۔سندھ مےں جائےدادوں کو رہائشی، تجارتی اور صنعتی کےٹگیریز مےں تقسیم کیا گیا ہے،جن کو مزید تعمیر شدہ اور اوپن پلاٹس میں تقسیم کیا گیا ہے۔
پنجاب مےں رہائشی اور تجارتی پلاٹ ہےں ( صنعتی پلاٹ نہےں ) بلوچستان مےں تجارتی اور غےر تجارتی پلاٹ ہےں (صنعتی پلاٹ نہےں) کے پی کے مےں رہائشی اور کمرشل پلاٹ ہےں (صنعتی پلاٹ نہےں) نہ صرف یہ کہ کےٹگریز مختلف ہےں بلکہ اےک مرلہ پلاٹ اگر سیالکوٹ اور فےصل آباد مےں ہو تو 30.25مربع گز کا ہوتا ہے۔ جبکہ یہی اےک مرلہ کا پلاٹ اگر لاہور مےں ہو تو اس مےں 25مربع گز ہو تے ہےں۔کراچی جو اس وقت ملک کی مجموعی ریونیو کا 54% ادا کرتا ہے۔ اس کو مزید نچوڑ نے کی تیاری کی گئی ہے جس کا ثبوت FBR کے پراپرٹی SROsہےں۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس ضمن میں مشیر خزانہ مداخلت کریں اور ایف بی آر کو احکامات جاری کریں کے تمام اسٹیک ہولڈرز کا اجلاس طلب کرے اور ان کے ساتھ مشاورت کے بعد موزوںاور لوجیکل یکساں ریٹس پورے ملک کے لئے رکھے جائیں اور کسی شہر یا صوبے کے ساتھ امتیازی سلوک روا نہ رکھا جائے۔