صفدر چودھری مرحوم۔ سراپا انکسار شخصیت

344

متین فکری

صفدر چودھری کو مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ شق ہوتا ہے۔ ان سے دوستانہ تعلق، نصف صدی کا قصہ ہے، دوچار برس کی بات نہیں، وہ زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے تو وابستہ تھے ہی 1967ء میں پنجاب یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں امتیازی پوزیشن سے ایم اے کرنے کے بعد جماعت اسلامی کے شعبہ نشر و اشاعت کو جوائن کیا تو 5A زیلدار پارک اچھرہ (لاہور) میں شاید پہلے ہی روز ان سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ جہاں امیر جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی کی رہائش بھی تھی اور جماعت کے مرکزی دفاتر بھی۔ یوں اس کوٹھی کو مرکز جماعت کی حیثیت حاصل تھی۔ کوٹھی کا عقبی حصہ امیر جماعت کی فیملی کے پاس تھا جب کہ کوٹھی کا سامنے والا بڑا کمرہ امیر جماعت کا دفتر اور دائیں بائیں دو کمرے جماعت کے دیگر ذمے داران کے لیے تھے۔ دائیں کمرے میں قیم جماعت میاں طفیل محمد صاحب کا دفتر تھا اور بائیں کمرے میں جو نسبتاً بڑا تھا ناظم مالیات فقیر حسین صاحب اور ناظم شعبہ نشر و اشاعت نعیم صدیقی صاحب تشریف رکھتے تھے۔ باقی شعبہ جات کے ناظمین کے دفاتر کوٹھی کے احاطے میں الگ بنے ہوئے تھے۔ مرکز جماعت منصورہ تو بہت بعد میں تعمیر ہوا۔ ہماری صفدر چودھری سے ملاقات نعیم صدیقی صاحب کے دفتر میں ہوئی۔ ہم اُن دنوں ہفت روزہ ایشیا میں کام کررہے تھے اور دوچار روز بعد مرکز جماعت کا چکر لگانا ہمارے فرائض میں شامل تھا۔ نعیم صاحب کے کمرے میں داخل ہوئے تو ان کے بالمقابل ایک نوجوان مودب بیٹھا ہوا تھا اور نعیم صاحب اس سے باتیں کررہے تھے، ہم نے باآواز بلند سلام کیا نعیم صاحب نے سلام کا جواب دیا جب کہ وہ نوجوان کرسی سے اُٹھ کر کھڑا ہوگیا اور گرمجوشی سے مصافحہ کیا۔ نعیم صاحب نے تعارف کرایا ’’یہ ہیں صفدر چودھری صاحب، شعبہ نشر و اشاعت میں میرے ساتھ کام کریں گے اور یہ ہیں متین فکری صاحب‘ ایشیا کے نائب مدیر ہیں‘‘۔ پھر وہ صفدر صاحب کو مخاطب کرکے بولے، ’’چلیے آپ کے دن کا آغاز ایک صحافی کے ساتھ تعارف سے ہوگیا لیکن آپ کو تعارف کا دائرہ بہت وسیع کرنا
ہے‘‘ صفدر صاحب نے اثبات میں سر ہلایا وہ نعیم صاحب کی توقعات پر پورے ثابت ہوئے اور نہایت مختصر مدت میں انہوں نے لاہور سے شائع ہونے والے تمام اخبارات کے ساتھ اپنا تعلق استوار کرلیا۔ وہ رپورٹروں سے لے کر ایڈیٹروں تک بلکہ نیوز ڈیسک پر کام کرنے والے سب ایڈیٹروں سے بھی دوستانہ تعلقات رکھتے تھے، وہ اپنی انکساری، خوش اخلاقی اور ملنساری کے سبب صحافی برادری میں ہر دلعزیز اور مقبول تھے، ہر شخص انہیں اپنا قریبی ساتھی، دوست اور ہمدرد سمجھتا تھا اور ان سے اپنا دکھ سکھ شیئر کرکے مطمئن ہوجاتا تھا۔ ایسا ہرگز نہ تھا کہ وہ دوستوں کو پورا کرنے کے لیے ان کے ساتھ انکساری سے پیش آتے تھے بلکہ انکساری ان کی عادتِ ثانیہ کا درجہ رکھتی تھی، وہ پورے اخلاص کے ساتھ اپنے مخاطب پر اپنا پیار نچھاور کرتے اور اسے خوش دیکھ کر نہال ہوجاتے۔
جناب نعیم صدیقی نشر و اشاعت کے بجائے تصنیف و تالیف اور شعر و ادب کے آدمی تھے۔ انہیں جب ایک نہایت فعال نائب مل گیا تو وہ آہستہ آہستہ نشر و اشاعت کے شعبے سے دستکش ہو کر اپنے اصل کام کی طرف متوجہ ہوگئے اور یہ شعبہ مکمل طور پر صفدر چودھری کی تحویل میں دے دیا گیا۔ اب جماعت اسلامی میں بھی پرانی اصطلاحات متروک ہوگئی تھیں اور ان کی جگہ جدید الفاظ نے لے لی تھی۔ قیم کی جگہ سیکرٹری جنرل لکھا جانے لگا تھا اور ناظم شعبہ کی جگہ سیکرٹری شعبہ کی اصطلاح رائج ہوگئی تھی۔ چناں چہ صفدر صاحب بھی سیکرٹری اطلاعات بن گئے تھے۔ انہوں نے بطور سیکرٹری اطلاعات سید مودودی سے لے کر قاضی حسین احمد تک تین امرائے جماعت کے ساتھ کام کیا اور ان کی توقعات پر پورا اترے۔ وہ سید مودودیؒ کی خواہش پر جماعت کے نظم میں شامل ہوئے تھے، اس لیے صفدر صاحب شعوری طور پر سید مودودی کے مزاج شناس تھے اور ہمیشہ اس بات کے لیے کوشاں رہتے تھے کہ سید صاحب کو اپنے علمی کام کے لیے سازگار ماحول میسر آئے اور وقت بے وقت ان کے پاس ملاقاتیوں کا جمگھٹا نہ لگا رہے۔ سید مودودیؒ کی مجالس عصر سب کے لیے عام تھیں ان مجالس میں عوام و خواص سب شریک ہوتے۔ صفدر صاحب ان مجالس کے اہتمام میں خاص دلچسپی لیتے تھے اور اس بات کا خاص خیال رکھتے تھے کہ کوئی اہم شخصیت آئے تو اسے سید صاحب کے قریب جگہ ملے اس مقصد کے لیے بعض اوقات وہ خود سید مودودیؒ کے قریب کرسی پر بیٹھ جاتے اور جب کوئی اہم شخصیت آتی تو اس
کے لیے کرسی خالی کردیتے، جو لوگ اوقات کار کے دوران سید صاحب سے پیشگی وقت لے کر ملنے کے لیے آتے تھے ان کے لیے تو کوئی دشواری نہ تھی، صفدر صاحب اندر اطلاع پہنچاتے اور انہیں بلا لیا جاتا، البتہ جو لوگ اچانک آدھمکتے تھے اور ان کا اصرار ہوتا تھا کہ وہ ابھی سید مودودی سے ملاقات کریں گے انہیں صفدر صاحب کا مشورہ یہی ہوتا تھا کہ وہ عصر تک انتظار کریں۔ اخبارات پر بالعموم جماعت اسلامی کے مخالفین کا قبضہ تھا لیکن جب صفدر چودھری نے اخبار نویسوں کے ساتھ اپنی انکساری کا جادو جگایا تو دلوں کے قفل کھل گئے اور جماعت اسلامی کے حق میں فضا بڑی حد تک سازگار ہوگئی۔ خبر رساں ایجنسیاں اُس زمانے میں صرف دو تھیں، پی پی آئی پرائیویٹ سیکٹر میں اور اے پی پی پبلک سیکٹر میں، دونوں ایجنسیوں میں صفدر چودھری کے چاہنے والے موجود تھے۔ اے پی پی میں رمضان عادل جماعت اسلامی کے شیدائی اور سید مودودی کے پروانے، ان کی صفدر چودھری سے گاڑھی چھنتی تھی۔ وہ ٹیلی پرنٹر پر خبر جاری کرتے اور صفدر صاحب کو ٹیلیفون کھڑکا دیتے پھر جماعت اسلامی کی اس خبر کو
اخبارات کے لیے KILL کرنا دشوار ہوجاتا۔ سید مودودی نے جب اپنی بیماری کے سبب امارت سے سبکدوشی اختیار کرلی اور ارکان جماعت نے میاں طفیل محمد کو نیا امیر منتخب کرلیا تو صفدر صاحب نے میاں صاحب کے درویشانہ مزاج کے باوجود اخبارات میں ان کی موجودگی کو یقینی بنائے رکھا اور تمام اہم قومی امور پر ان کے بیانات لے کر اخبارات کو بھیجتے اور ان کی اشاعت کو یقینی بناتے رہے۔ میاں طفیل محمد کے بعد قاضی حسین احمد امیر جماعت منتخب ہوئے تو ان کی شخصیت میڈیا پر چھا گئی، اس میں صفدر چودھری کی کوششوں کا بڑا دخل تھا۔ قاضی صاحب ان کی بڑی عزت کرتے تھے اور انہیں اپنے مشوروں میں شریک رکھتے تھے۔ صفدر صاحب کو جہاد کشمیر سے بھی گہرا لگاؤ تھا ان کا ایک بیٹا مقبوضہ کشمیر میں شہید ہوچکا تھا۔ اس طرح ایک شہید کا باپ ہونے کا اعزاز بھی انہیں حاصل تھا۔
صفدر صاحب کو جوانی ہی میں شوگر کا موذی مرض لاحق ہوگیا تھا، اس مرض پر قابو پانے اور اس کے ساتھ معمول کی زندگی گزارنے کے لیے جس احتیاط، ضبط اور پرہیز کی ضرورت تھی وہ اسے اختیار نہ کرسکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شوگر اندر ہی اندر ان کے جسم کو کھوکھلا کرتی چلی گئی اور وہ مسلسل بیمار رہنے لگے۔ انہوں نے خود بھی محسوس کیا کہ وہ اب سیکرٹری اطلاعات کی حیثیت سے اپنی ذمے داری نہیں نبھا سکتے تو اپنے منصب سے سبکدوش ہوگئے لیکن قاضی صاحب انہیں ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے اس لیے ان کی خاطر ایک نیا شعبہ تعلقات عامہ قائم کیا اور اس کی سربراہی صفدر چودھری کو سونپ دی۔ صفدر صاحب 2012ء تک یہ ذمے داری نبھاتے رہے، جس بیماری کے ہاتھوں بالکل ہی مجبور ہوگئے تو یہ ذمے داری بھی چھوڑ دی، اس کے ساتھ ہی وہ منصورہ سے ایک نئی آبادی محفوظ ٹاؤن میں منتقل ہوگئے لیکن علاج ان کا منصورہ ہسپتال ہی میں ہوتا رہا اور وہیں 13 جنوری کو داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ سچ کہا ہے کسی نے
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے