کیا پھر ٹھن گئی؟

242

ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت اور فوج پھر آمنے سامنے ہیں ۔ ایک طرف فوجی ترجمان کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت کو خطرہ فوج سے نہیں ہے فوائد عوام تک نہ پہنچنے سے ہے ۔ وقت پر انتخابات الیکشن کمیشن کو کرانے ہیں خدا نہ کرے آرمی چیف اس کا اعلان کریں ۔ اور وزیر اعظم پاکستان بھی اسی روز فرما رہے ہیں کہ ملکی تاریخ کا سب سے خطرناک وزیر اعظم ہوں کسی میں ہمت ہے تو پارلیمنٹ توڑ کر دکھائے ۔ جسے جو کھیل کھیلنا ہے کھیل لے انتخابات جولائی ہی میں ہوں گے ۔ ہر ادارہ اپنے دائرے میں کام کرے تو بہتر ہے ۔ وزیر اعظم کسی کو یہ بات کہہ رہے ہیں اس میں کوئی دو رائے نہیں کیوں کہ اسمبلی صدر توڑتا تھا یا آرمی چیف ۔ صدر میں تو اتنا حوصلہ نہیں کہ وہ یہ کام کر ڈالیں ۔ پاکستان کی فوج کے کسی بھی چیف کے لیے اسمبلیاں توڑنا تو کوئی بڑا کام نہیں جب چاہیں یہ کام کر لیتے ہیں۔ لیکن وزیر اعظم کا مقصد ایسے بیانات سے کیا ہے۔۔۔ کیا وہ فوج کو کسی انتہائی اقدام پر اکسا کر پارٹی کو سیاسی شہید بنانا چاہتے ہیں ۔ تاکہ پچھلا حساب کوئی نہ مانگے ۔۔۔ اور فوج حساب مانگنے کے بجائے بندے سے مانگتی ہے کبھی ق لیگ کے لیے کبھی پارلیمنٹیرین کے لیے کبھی حقیقی کے لیے اسے اس سے کیا کہ کس نے ماضی میں کیا گھپلے کیے ہیں آٹھ دس سال حکمرانی کر کے فوج کا سربراہ چلا جاتا ہے پھر نیا سربراہ فوج کو پیشہ ورانہ اعتبار سے مضبوط بنانے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس کے دوران وہ ایسی دھمکیاں سنتا رہتا ہے ۔ دوسرے جرنیل بھی سنتے ہیں پھر اگر کوئی پارلیمنٹ توڑ دے تو اسی جرنیل کے گرد یہی لوگ جمع ہو جاتے ہیں ۔کسی کو جرنیل کی تقریر میں علامہ اقبال کا چہرہ نظر آتا ہے کسی کو قائد اعظم جھلکتے ہوئے نظر آتے ہیں یہ ڈرامے بازی اسی قسم کی ہوتی ہے ۔