جامعہ پنجاب اور میڈیا

419

تعلیمی اداروں میں سیاسی مداخلت کا الزام تو پرانا ہوتا جا رہا ہے اب تو تعلیمی اداروں کے اندر اتنے اسباب پیدا کر دیے گئے ہیں کہ کسی کو باہر سے مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ۔ جامعات جہاں ریسرچ اور تعلیم کی سطح کالجوں اور اسکولوں سے کہیں زیادہ ہونی چاہیے وہاں پر انتظامیہ وائس چانسلر اور ان کا عملہ خود یہ کام کر رہا ہوتا ہے ۔ خود ہی اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق تنظیمیں تخلیق کر لیتے ہیں ۔ جامعہ پنجاب میں ایک اور واقعہ ایسا ہی ہو گیا اسلامی جمعیت طلبہ نے بک فیئر کے لیے خیمے لگائے اور اس کا افتتاح ہونے والا تھا کہ صبح ہی بلوچ قوم پرست تنظیم نے حملہ کر کے تمام انتظامات درہم برہم کر دیے۔ شعبۂ انجینئرنگ کو آگ لگا دی ، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو نقصان پہنچایا ۔وائس چانسلر کہتے ہیں کہ کسی کو غنڈہ گردی نہیں کرنے دیں گے وزیر اعلیٰ نے رپورٹ طلب کر لی ہے ۔ صوبائی وزیر کہتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ وائس چانسلر اقدام کریں ان کو اپنے اختیارات استعمال کرنے دیں حکومتی مداخلت اب نہیں ہو گی ۔وائس چانسلر نے یہ بھی بتایا ہے کہ کچھ کی شناخت ہو گئی ہے سخت کارروائی کریں گے لیکن کب۔۔۔ اس کے بارے میں پورے ملک کی طرح خاموشی ہے ۔ کسی مجرم کے خلاف سخت کارروائی کے لیے کیا شرائط ہیں اور کیا ضروریات ہیں ان کا کسی کوعلم نہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زینب قتل کیس ہو ، انتظار قتل یانقیب اللہ کا معاملہ سارے معاملوں کا نتیجہ ایک ہی ہو گا ۔ سخت ایکشن لیں گے ۔ اب وائس چانسلر بھی یہی کہہ رہے ہیں اور اس کے علاوہ وہ کچھ کر بھی نہیں سکتے ۔ یا کرنا نہیں چاہتے اس سے قبل بھی بلوچ کلچرل ڈے کے نام پر اسلامی جمعیت طلبہ ہی کو نشانہ بنایا گیا تھا ۔ا س واقعے میں بھی میڈیا کا رویہ وہی منافقانہ ہے اور اخبارات میں بھی کہیں کہیں درست خبر لگ گئی ورنہ اکثر مقامات پر خبر یہ ہے کہ دو طلبہ گروپوں میں تصادم ہو گیا ۔ یعنی رات کو اندھیرے میں دو گروہ ایک دوسرے پر حملہ آور تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ کی مثبت سرگرمی سے پریشان وائس چانسلر اور ان کی ٹیم کو کچھ نہ سوجھی تو انہوں نے اپنے بھرتی کیے ہوئے قوم پرستوں کو اشارہ کر دیا انہیں وہاں رہنے کے لیے ہاسٹل اور ہاسٹل کے لیے داخلہ درکار تھا وہ جامعہ پنجاب کی انتظامیہ نے دے دیا ہے ۔ وائس چانسلر کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ انہوں نے کہا اب بلوچوں کو رکھتے وقت صرف میرٹ والوں کو داخلہ دوں گا ۔ تو سوال یہ ہے کہ اب تک میرٹ کے بغیر داخلے کیوں دے رہے تھے ۔ جب وائس چانسلر اور انتظامیہ کا یہ حال ہے کہ اپنی بد انتظامی اور جرم کا برملا اعتراف کر رہے ہیں تو پھر دوسروں کو کیا کہہ سکتے ہیں ۔ جامعہ کراچی میں تو اس قسم کے واقعات کے نام پر رینجرز کو داخل کیا گیا اور آج 35 برس سے زیادہ وقت گزرنے کے باوجود مجرموں کے خلاف سخت ایکشن نہیں ہوا طلبہ اور اسلامی جمعیت طلبہ جامعہ کراچی میں بھی نشانے پر رہتی ہیں ۔ جامعہ پنجاب میں جو کچھ ہوا وہ منصوبہ بند سازش ہے پہلے توڑ پھوڑ اور جھگڑے کا واقعہ ہوتا ہے پھر میڈیا اسے تصادم قرار دیتا ہے اور تجزیہ نگار اسلامی جمعیت طلبہ کو مورد الزام قرار دے کر اسلام کے خلاف زہر اُگلنے لگتے ہیں ۔ اب تو حد ہو گئی ایک ٹی وی اینکر( تیسرے درجے کی ) کسی کا لکھایا ہوا سبق رٹو توتے کی طرح واٹس اپ کر کے مختلف گروپوں میں بھیج رہی تھی لیکن تھوڑی ہی دیر میں پکڑی گئی کہ یہ ٹی وی اینکر ہے کوئی گھریلو خاتون نہیں ۔ اپنے دل کا غبار نکال رہی تھی ۔ اسلام کو تو کچھ نہیں کہہ سکتی تو جمعیت ہی کو نشانے پر رکھ لیا ۔ اب ایک تحقیقاتی کمیٹی بنے گی اور عمران خان کی آمد پر ہونے والے واقعے ، ایک شعبے کے استاد کی جانب سے طالبہ کو ہراساں کرنے کے مجرم کو تحفظ دینے ، اور بلوچ طلبہ کے گزشتہ حملے کی طرح تحقیقات ہوتی رہے گی ۔ یہاں تک کہ اگلا واقعہ ہو جائے گا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا معاملات اسی طرح چلتے رہیں گے؟ ہمارے خیال میں تو اسی طرح چلتے رہیں گے کیونکہ جن لوگوں کے پاس اس مسئلے کا حل ہے وہ اسے حل نہیں کرنا چاہتے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی ضیاء الحق کی باقیات کو سینے سے لگائے ہوئے ہے اور دعویٰ کرتی ہے کہ آمریت کے تمام فیصلے کالعدم کر دیں گے لیکن اس نے اپنے پانچ سالہ دور میں طلبہ یونینوں کے انتخابات نہیں کرائے بلکہ مزدور یونینوں کے انتخابات بھی نہیں کرائے ۔ پارلیمنٹ نے فیصلہ دے دیا ہے کہ انتخابات کرائے جائیں لیکن جب تک پیپلز پارٹی حکومت میں رہی اس نے ایسا نہیں کیا ۔ اب چیئر مین سینیٹ بیانات کی حد تک اس کے بڑے وکیل ہیں لیکن سندھ میں بھی یہ کا م نہیں ہو پا رہا ۔ مسئلے کا حل تو یہی ہے کہ طلبہ کو طلبہ کے سامنے ہی جوابدہ بنایا جائے ۔ اس مقصد کے لیے طلبہ یونین بہترین راستہ ہے لیکن حکمرانوں کو معلوم ہے کہ تعلیمی اداروں میں ان کی مداخلت ناجائز تقرر، فنڈز میں گھپلے ، جامعات میں شادی ہالز بنانے اور طالبات کے ساتھ بد تمیزی کے واقعات کی روک تھام ہو جائے گی ۔ جرنیلوں کو تو صرف متبادل قیادت پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے لیکن سویلین حکمرانوں کے سارے ہی دھندے گندے ہیں انہیں اس متبادل قیادت سے زیادہ خوف ہے لہٰذا یہ لوگ جامعات یا تعلیمی اداروں کے لیے ایسا حل نہیں ہونے دیں گے ۔ پاکستان مسلم لیگ بھی خوفزدہ ہے حالانکہ جو لوگ اس کی جانب سے آج بھی ڈٹ جاتے ہیں وہ اسلامی جمعیت طلبہ یا طلبہ یونینوں ہی کی پیدا وار ہیں ۔ اگر وہ یہ یونین بحال کریں گے تو ان کی پارٹی کا بھی فائدہ ہو گا ۔ وہ تو آج کل عتاب میں ہے آنے والے دنوں میں اسے بھی نیا سیاسی خون چاہیے ۔۔۔ لیکن ایسا کرنے کے لیے بڑا دل گردہ چاہیے اپنی حکومت کے ہوتے ہوئے یونینوں کا الیکشن ہارنا بھی بڑی آزمائش کا کام ہوتا ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں حکومت پیپلز پارٹی کی تھی اور طلبہ یونین کراچی سے پشاور تک اسلامی جمعیت طلبہ کی تھی ۔ پھر جمعیت سے خوف کیوں نہیں ہو گا ۔ میڈیا تو ہر ایسے واقعے پر پہلے سے زیادہ بے نقاب ہو جاتا ہے جس میں اسلام یا اسلامی تنظیمیں وابستہ ہوں یا ان کا نام رہا ہو لہٰذاا س حوالے سے تو کچھ کہنے لکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ ان کا فیصلہ تو عوام کو کرنا چاہیے ۔ ان چینلوں پر کم علم بلکہ بے علم تجزیہ نگاروں کو سن سن کر ان چینلوں کی وقعت یا رینکنگ بڑھاتے رہیں گے تو ایسا ہی نتیجہ آئے گا ۔