امریکا کی جمہوریت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ

439

امریکا کے وزیر دفاع جم میٹس نے دھمکی دی ہے کہ امریکا کی جمہوریت کے تجربے کو جو بھی خطرہ ہوگا اس کا فوجی قوت سے مقابلہ کیا جائے گا۔ جس امریکی جمہوریت کے دفاع کا جم میٹس دعویٰ کر رہے ہیں اس کے ماتھے پر خود امریکا نے کلنک کا ٹیکہ لگا رکھا ہے اور وہ ہے کیوبا کے ساحل پر امریکی بحری اڈے میں گوانتا نامو بے کا عقوبت خانہ۔
گیارہ جنوری کو اس امریکی عقوبت خانے کے قیام کو سولہ سال ہوگئے۔ اس عقوبت خانہ میں شروع میں 779 امریکا کے قیدی تھے جن پر القاعدہ سے تعلق کا الزام تھا لیکن ان میں سے کسی کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ ان قیدیوں میں سے اب بھی 41قیدی پابند سلاسل ہیں اور 31قیدی ایسے ہیں جنہیں اس عقوبت خانے میں دس سال سے زیادہ ہوگئے ہیں۔
کس قدر اذیت ناک صورت حال ہے کہ سولہ سال گزرنے کے بعد بھی یہاں قیدی مصائب جھیل رہے ہیں اور انہیں اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے کا کوئی موقع نہیں دیا گیا ہے۔ خود کو جمہوریت کہلانے والے اور سپر طاقت کا دعویٰ کرنے والے امریکا کے ماتھے پر یہ کلنک کا ٹیکہ نہیں تو اور کیا ہے۔ بلاشبہ یہ ریاستی دہشت گردی ہے اس امریکا کی جو ساری دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ صدر ٹرمپ کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ امریکا کو دوبارہ عظیم بنائیں گے۔ گوانتا نامو بے کے اس عقوبت خانے کے ہوتے ہوئے امریکا کو کس طور عظیم بنا سکتے ہیں، خاص طور پر اس انکشاف کے بعد کہ اس عقوبت خانے کا ایک قیدی خالد قاسم جو پندرہ سال سے بغیر مقدمہ چلائے قید ہے، شدید علیل ہے اُسے طبی امداد فراہم کرنے سے انکار کیا جارہا ہے اور اس کی وجہ بھی نہیں بتائی جاتی۔
گوانتا نامو بے میں قیدی کس اذیت کی زندگی گزارتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قیدیوں کو اٹھارہ گھنٹے تک ایک بکس میں بند رکھا جاتا ہے۔ پھر قیدیوں کو طویل عرصے تک بالکل برہنہ کھڑا رکھا جاتا ہے۔ قیدیوں کو اذیت دینے کے لیے انہیں ایک سو گھنٹوں تک سخت تکلیف کے عالم میں کھڑا رکھا جاتا ہے اور انہیں نیند سے محروم کرنے کے لیے ڈھول تاشوں اور شور و غل والی موسیقی کے ریکارڈ بجا کر جگائے رکھا جاتا ہے۔ قیدیوں سے پوچھ گچھ کے دوران انہیں آنکھوں پر پٹی باندھ کر ایک تختے پر جکڑ کر انہیں پانی میں ڈوبویا جاتا ہے یا آنکھوں پر پٹی باندھ کر ان پر زور سے پانی ڈالا جاتا ہے کہ انہیں یہ محسوس ہو کہ وہ ڈوب رہے ہیں۔ اس اذیت کو امریکی بڑی شان سے Water Boarding کہتے ہیں۔ بیش تر بین الاقوامی تنظیموں نے اس اذیت ناک عمل کی مذمت کی ہے اور اسے ترک کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن امریکیوں پر کوئی اثر نہیں ہوا ہے۔ گزشتہ پندرہ سال میں سخت اذیت کی وجہ سے چار قیدی دم توڑ بیٹھے ہیں، ان کی موت کے اسباب کے بارے میں کوئی تحقیقات نہیں ہوئی۔ یہ محض کیڑے تھے جو اس قید خانے میں اذیت آمیز حالات کی وجہ سے مر گئے، کوئی ان کا والی وارث نہیں تھا۔ سوائے انسانی حقوق کی چند بین الاقوامی تنظیموں کے۔ ان کا احتجاج کے علاوہ اور کوئی بس نہیں چلتا۔
2005 میں نیو یارک ٹائمز میں ایف بی آئی کے ایک ایجنٹ نے گوانتا نامو بے کے بارے میں انکشاف کیا تھا کہ اس نے پوچھ گچھ کے کمرے میں قیدیوں کو زنجیروں میں بندھا فرش پر پڑے دیکھا تھا ان کے بیٹھنے کے لیے کوئی کرسی نہیں تھی۔ ان کے کھانے پینے کے لیے کوئی چیز نہیں تھی اور بہت سے قیدی پیشاب میں لت پت تھے جو اٹھارہ گھنٹے تک فرش پر پڑے رہے۔
نیویارک میں 9/11 کے حملوں کے بعد صدر بش کے حکم پر 2002 میں کیوبا کے ساحل پر امریکی بحری اڈے پر یہ قید خانہ قائم کیا گیا تھا ان قیدیوں کے لیے جو افغانستان کی جنگ کے دوراں پکڑے گئے تھے کیوں کہ امریکا کی سر زمین پر اس نوعیت کا عقوبت خانہ قائم نہیں کیا جاسکتا تھا جس کے قیدیوں پر امریکا کا آئین اور قانون کا اطلاق ہوتا۔
سابق صدر اوباما نے، اپنی انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ گوانتا نامو بے کو بند کردیں گے۔ 2009 میں صدارتی انتخاب جیتنے کے دوسرے دن انہوں نے گوانتا نامو بے بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ خبر جب عقوبت خانے کے قیدیوں تک پہنچی تو پورا قید خانہ گونج اٹھا۔ ’’ہم رہا ہو رہے ہیں، ہم گھر جا رہے ہیں‘‘ لیکن یہ محض سراب ثابت ہوا۔ اوباما امریکی فوج اور امریکی کانگریس کی مخالفت کے سامنے بے دست و پا رہے اور اپنا وعدہ پورا نہ کر سکے، البتہ ان کے دور میں 196 قیدی رہا کیے گئے اور ان کے ملکوں کو منتقل کیے گئے۔ اس فوجی قید خانے پر ہر سال 45کروڑ ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں۔
موجودہ صدر ٹرمپ نے برسر اقتدار آنے کے بعد صاف صاف اعلان کیا کہ: ’’ہم گوانتا نامو بے کو بدمعاشوں سے بھر دیں گے۔ ہم گوانتا نامو بے کو بند نہیں کریں گے۔‘‘
امریکا میں گوانتا نامو بے بند کرنے کی مہم کا کہنا ہے کہ گوانتا ناموبے کے فوجی قید خانے سے امریکا کو کوئی تحفظ فراہم نہیں کرتا بلکہ اس کی وجہ سے امریکا کی قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔
اس وقت اس فوجی قید خانے میں جو 41قیدی ہیں ان میں گیارہ یمنی، آٹھ سعودی عرب کے شہری، اور ان کے ساتھ فلسطین، لیبیا، عراق، صومالیہ، مراکش، الجزائر ملائیشیا اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے قیدی ہیں۔ پاکستان کے چار قیدی ہیں جن میں سیف اللہ پراچہ، خالد شیخ محمد، عبد الرحیم غلام ربانی اور عمار علی بلوچ شامل ہیں ان سب کو پاکستان کے فوجی آمر نے پکڑ کر امریکا کے ہاتھ فروخت کیا تھا۔ گو اس دوران برطانیہ نے اپنے تمام دس قیدیوں کورہا کرا لیا ہے۔ آخری قیدی شاکر عامر 2015 کو رہا ہوا تھا۔ پاکستان کی حکومت پاکستانی قیدیوں کی رہائی کے معاملے میں پراسرار طور پر منہ بند کیے ہوئے ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پرویز مشرف نے ان پاکستانی قیدیوں کو ہمیشہ کے لیے امریکا کے ہاتھ فروخت کر دیا ہے اور حکومت پاکستان بھی انہیں، جن کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں چلایا گیا ہے اور نہ ان پر کوئی الزام ثابت کیا گیا ہے، یکسر بھلا بیٹھی ہے۔ ایک بات گوانتا نامو بے کے بارے میں یقینی ہے اور وہ یہ کہ اس کا مستقبل تاریک ہے اور اس کے بند ہونے کا قطعی کوئی امکان نہیں ہے۔