میاں منیر احمد
برطانوی پارلیمنٹ کے رکن طہ قریشی کی کتاب کی رونمائی کی تقریب کیا تھی‘ تبدیلی کا ایک پیغام تھا‘ جاوید ہاشمی صدارت کر رہے تھے اور فخر امام مہمانِ خصوصی تھے۔ طہٰ قریشی کی کتاب ’’قیام امن اور اقوامِ عالم‘‘ میں عالم اسلام کی سسکتی ہوئی صورتِ حال کا تجزیہ کیا گیا ہے‘ صورت حال سے نکلنے کے راستے بتائے گئے ہیں‘ غلطیوں کی نشان دہی کی گئی ہے‘ مغرب کے دہرے معیارات کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ مصنف نے مسلمان ممالک کی بے حسی اور بے حمیتی کو بھی نظر انداز نہیں کیا، بلکہ غیروں سے بڑھ کر انہیں آئینہ دکھایا ہے اور سوال اٹھایا ہے کہ ان کی بصیرت پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔
یہ پندرہ ابواب پر مشتمل ایک ایسی دستاویز ہے، جس میں قومی سے لے کر عالمی مسائل تک کو احاطہ کیا گیا ہے قاری حنیف جالندھری نے اس تقریب میں جہاں پاکستان میں جنم لینے والے نئے بیانیے پر روشنی ڈالی، وہیں اس بات کا تذکرہ بھی کیا کہ جب 2002ء میں امریکا نے افغانستان کو اپنا نشانہ بنایا تو ہم نے اس وقت بھی کہا تھا کہ یہ اسلام یا پاکستان کی نہیں، بلکہ اغیار کی جنگ ہے ایک طویل وقفے اور نقصان کے بعد اب اس بات کو ریاستِ پاکستان نے بھی تسلیم کر لیا ہے۔ یہ فیصلہ ہماری ریاست کے لیے امرت دھارا ثابت ہوگا، ہم نے دیکھ لیا ہے کہ امریکی استعمار کا حصہ بن کر ہم نے پاکستان کو اغیار کی جنگ کا میدان بنایا اور اپنا سب کچھ تباہ کر لیا‘ مغرب اور امریکا کو بھی بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں اور ان کے مابین غلط فہمیاں ختم کرنے میں امریکا اور مغرب ہی کو آگے بڑھنا ہوگا اور مسلم دنیا کے بارے میں اپنے دہرے معیار ختم کرنا ہوں گے۔ سید فخر امام نے اپنا من درست کرنے کی بات کی کہ اس کتاب میں اپنا دشمن خارج میں ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے حالاں کہ ہمیں اسے اپنے اندر ڈھونڈنا چاہیے۔ جب تک ہماری قیادت دوسروں کی طرف دیکھنا بند نہیں کرتی، امریکا اور دیگر طاقتوں کی نظر کرم کے لیے اپنے آپ کو ان کے سامنے جھکانے سے باز نہیں آتی، پاکستان میں استحکام آ سکتا ہے اور نہ دنیا میں ہماری عزت ہو سکتی ہے۔ چین کو ایک لیڈر نے زمین سے آسمان تک پہنچا دیا۔ پاکستان کے پاس بھی قائداعظم کی صورت میں ایک لیڈر آیا تھا، مگر قدرت نے انہیں وقت نہیں دیا، مگر کیا وہ اپنا نظریہ نہیں چھوڑ گئے، کیا ہم ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ملک کو ایک ایسی لیڈرشپ نہیں دے سکتے جو ہمیں زوال سے نکال کر عروج کی طرف لے جائے۔
اہم سوال یہ بھی ہے اور اس کا جواب بھی چاہیے کہ یونیورسٹیوں میں افکار قائد اور ان کی شخصیت کو نصاب کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا آج ہماری نئی نسل سمجھتی ہے کہ ہماری سیاست اور قیادت یہی ہے جو اردگرد نظر آتی ہے، جس پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں اور جس کے بارے میں سب کو معلوم ہے کہ وہ امریکا کی دستِ نگر ہے حالاں کہ ہماری یہ سیاست نہیں ہے۔ ہماری سیاست وہ ہے جو قائداعظمؒ نے کی اور اپنی شخصی ایمانداری، خودداری اور تدبر سے ایک علیحدہ وطن حاصل کر لیا بدقسمتی سے ہم آج مسائل میں گھری قوم کا منظر پیش کر رہے ہیں، اقوامِ عالم میں اسلامی دنیا اپنا اثر کھو چکی ہے۔ بے تحاشا وسائل کے باوجود امریکا کی دستِ نگر بنی ہوئی ہیں، کیوں کہ اس نے انہیں سلامتی کے خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ جب تک وہ اس خوف سے نہیں نکلتیں، ان کی حالت ایسی ہی رہے گی۔
جاوید ہاشمی نے ملکی سیاست پر کچھ سوالات اٹھائے ان کا استدلال وہی تھا کہ جس ملک میں پندرہ وزراء اعظم اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکے، وہاں استحکام کیسے آ سکتا ہے کیا کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو اپنی آئینی مدت پوری کر سکتا ایک نئی روایت ڈال دی گئی ہے کہ اسمبلیوں کو تو مدت پوری کرانی ہے، مگر وزیراعظم کو گھر بھیج دینا ہے۔ پہلے یوسف رضا گیلانی کو عدالتی احکام سے گھر بھیجا گیا اور اب نوازشریف اس کی زد میں آ گئے جب وزیراعظم کو اندر سے اتنا کمزور رکھا جائے گا تو وہ عالمی طاقتوں کے سامنے کیسے کھڑا ہو سکے گا۔ پھر تو اسے اپنی سلامتی کی بھیک ہی مانگنی پڑے گی۔ اگر پاکستان کو مضبوط و مستحکم کرنا ہے تو پارلیمنٹ کو مضبوط کرنا پڑے گا۔
بہر حال اس کتاب میں وہ سب کچھ سمو دیا گیا ہے، جس کا آج کل عالم اسلام اور اقوامِ عالم کو سامنا ہے یہ ایک بہت بڑی عالمی سازش ہے، جس کا مقصد عالمی امن کو تباہ کرنا ہے اس خطہ میں بھی امن لانے کی ضرورت ہے۔ کتاب کا مرکزی نقط�ۂ نظر یہ ہے کہ اقتصادی خود انحصاری کے بغیر آزادی و اقتداراعلیٰ کا کوئی تصور نہیں۔