محمد انور
جب سیاست دان کرپشن میں ملوث ہوتے ہیں تو مختلف سرکاری اداروں میں جاری کرپٹ عناصر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے لیکن جب پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں تو پورا معاشرہ بدنظمی کا شکار ہوکر غیر یقینی صورت حال کا شکار ہوجاتا ہے۔
بدقسمتی سے ملک بھر خصوصاً کراچی میں ’’پولیس گردی‘‘ عام ہے۔ پولیس بھی بے قصور لوگوں کو گرفتار کرکے بھاری رقم بطور رشوت لیکر چھوڑ دیتی ہے اور مجرمین بھی بھتا وصول کرنے کے لیے لوگوں کو اغوا کرتے ہیں۔ جب بات حد سے بڑھتی ہے تو جرائم پیشہ انہیں تشدد کرکے ماردیا کرتے ہیں اور پولیس ماورائے عدالت لوگوں کی جانیں لے لیا کرتی ہے۔
بدقسمتی سے ہماری پولیس میں بھی ’’ان کاونٹر اسپشلسٹ‘‘ کے ایسے افسران ہیں جنہیں پولیس مقابلوں میں کسی قسم کی گزند نہیں پہنچتی جب کہ جن سے پولیس مقابلہ کرتی ہیں وہ اپنے پاس اسلحہ اور بم تک رکھنے کے باوجود ’’ماہر پولیس اہل کاروں‘‘ کا باآسانی نشانہ بن کر اپنے اوپر لگائے گئے الزامات سمیت ختم ہوجاتے ہیں۔ بعد میں مرنے والوں کو اس قدر خطرناک قرار دیدیا جاتا ہے کہ ان کی لاشیں تک لواحقین کے حوالے کرنے کے لیے بھاری رشوت طلب کی جاتی ہے ساتھ ہی ان کے لواحقین کا پورا ڈیٹا حاصل کرکے انہیں وقتاً فوقتاً تھانے طلب کرکے ان کی ’’مہمان نوازی‘‘ بھی کی جاتی ہے۔ جب ’’پانی سر سے اونچا ہوجاتا‘‘ ہے تو حکمرانوں سمیت تمام اداروں کے ’’کان پر جوں رینگنے لگتی ہے‘‘۔ مگر اس وقت تک مجرمانہ اذہان کے حامل پولیس اہل کار سمیت سرکاری افسران بے قابو ہوچکے ہوتے ہیں اور پھر وہ ہاتھ نہیں آتے، کسی کمیٹی کے اور نہ ہی کسی اعلیٰ ترین افسر کے۔
راؤ انوار تو محض ایک رینکر پولیس افسر ہیں جو ایک غریب سپاہی نثار کا بیٹا تھا جس نے صرف سب انسپکٹر تک ترقی حاصل کی تھی اور ریٹائر ہوگیا تھا۔ وہ سب انسپکٹر اس قدر خوف خدا رکھنے والا تھا کہ اپنے بیوی بچوں کو رزق حلال کھلانے کے لیے آرام باغ سمیت ایم اے جناح روڈ پر واقع تاجروں کو دوپہر کے کھانے کا ٹفن ان کے گھروں سے لیکر ان کی دکانوں تک پہنچایا کرتا تھا۔ اس سب انسپکٹر نے اپنے بیٹے راؤ انوار کو اس کے میٹرک کرنے کے بعد کسی طرح پولیس میں کلرک ’’منشی‘‘ کی حیثیت سے بھرتی کرا دیا تھا بعدازاں راؤ انوار کے انٹرمیڈیٹ مکمل کرنے کے بعد اس کے والد اسے براہ راست اے ایس آئی بھرتی کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ راؤ انوار اپنے والد کی چھوٹی بیوی کے بڑے بیٹے ہیں۔ پہلی بیوی سے سب انسپکٹر نثار کا بڑا بیٹا راؤ اقبال تھے جو ڈی ایس پی کی حیثیت سے دوران ملازمت انتقال کرچکے۔
سول ہسپتال کے قریب عیدگاہ تھانے کے سرکاری فلیٹ میں پرورش پانے والے راؤ انوار کے بارے میں شاید کوئی تصور بھی نہیں کرتا ہوگا کہ وہ بڑے ہوکر افسانوی کردار کے حامل ’’ان کاونٹر اسپشلسٹ‘‘ بن جائیں گے۔
کل کے غریب پولیس سب انسپکٹر کے بیٹے کو آج کا ’’ایس ایس پی راؤ انوار‘‘ ملک کے آلودہ سسٹم ہی نے تو بنایا ہے۔ راؤ شروع ہی سے ’’سلیکٹڈ‘‘ اور بااثر افراد سے تعلقات قائم کرنے کا شوقین تھا۔ یہ تعلقات راؤ انوار کو پولیس میں بھرتی ہوتے ہی ڈیپوٹیشن کی بنیاد پر ایف آئی اے لے گئے۔ ایف آئی اے کرائم سرکل میں کارکردگی دکھانے کے بعد جب ترقی کرکے سب انسپکٹر بنا تو اسے ائرپورٹ تھانے کا ایس ایچ او مقرر کیا گیا۔ ہر دور میں ائر پورٹ تھانے کے ایس ایچ او کے لیے اسی کی قسمت کھلی جو اثر رسوخ رکھتا ہو۔
راؤ انوار کے پیپلز پارٹی اور اس کے شریک چیئرمین آصف زرداری سے تعلقات کی بازگشت تو اب قومی اسمبلی کے فلور پر بھی سنی جارہی ہے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا یہ کہنا کہ: ’’سرپرستی سے متعلق تمام خبریں غلط ہیں‘‘۔ خورشید شاہ نے کہا کہ: ’’آصف زرداری راؤ انوار کی سرپرستی نہیں کر رہے، ایسی تمام اطلاعات بے بنیاد ہیں۔‘‘ خورشید شاہ کی یہ وضاحت الزام کی تردید سے زیادہ تصدیق کررہی ہے۔ اپوزیشن لیڈر کا موقف تھا کہ پولیس مقابلے میں بے گناہ شخص مارا گیا، جسے انصاف ملنا چاہیے اور راؤ انوار کو تحقیقات میں پیش ہونا چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر راؤ انوار تحقیقات میں پیش نہیں ہوں گے تو عدالتی انکوائری ہوگی اور ان کی پریشانی میں اضافہ ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ اگر پیپلز پارٹی راؤ انوار کی سرپرستی یا پشت پناہی نہیں کررہی ہے تو پھر ان کی گرفتاری کے لیے پہلے سے کیوں پولیس کو تیار رہنے کی ہدایت نہیں کی گئی تھی؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس قدر سنگین الزامات اور ان کی تحقیقات شروع ہونے کے باوجود راؤ انوار اور ان کے ساتھیوں کو حراست میں نہیں لیا جاسکتا تھا؟
پیپلز پارٹی نہیں پیپلز پارٹی کی اہم شخصیات راؤ انوار کی مبینہ طور پر براہ راست پشت پناہی کرتی ہیں۔ یقیناًاس حمایت کی کوئی بڑی وجہ بھی ہوگی۔ اس بارے میں سرکاری ذرائع کا کہنا ہے راؤ نے مبینہ طور پر 1996 میں اپنی ملازمت اور اپنے مستقبل کو داو پر لگا کر کلفٹن میں واقع سیاسی لیڈر کے نام سے منسوب گھر پر چھاپا مار کارروائی کو ناکام بنادیا تھا۔ انہوں نے ایک بڑے حساس ادارے کی جانب سے کی جانے والی کارروائی سے نہ صرف پیشگی طور پر آگاہ کردیا تھا بلکہ اس حوالے سے مبینہ طور پر عملی مدد بھی کی تھی۔ راؤ انوار کا یہی احسان سیاسی شخصیات سے ذاتی تعلقات کا سبب بنا اور راؤ انوار آگے بڑھتے گئے یہاں تک کے ان کے کاندھوں پر پولیس کے چاند تارے کے ساتھ 250 افراد کے قتل کا الزام لگ چکا ہے۔
مزمل ایڈووکیٹ کی طرف سے سندھ ہائی کورٹ دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ راؤ انوار نے اب تک 250 افراد کو قتل کیا ہے جب کہ کسی ایک پولیس مقابلے کی آزادانہ تحقیقات نہیں کرائی گئی۔ اس درخواست کے مطابق راؤ انوار نے دوران ملازمت اختیارات سے تجاوز کیا اور طویل عرصے تک ملیر ہی میں تعینات رہے۔ درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ جعلی پولیس مقابلوں کے باوجود راؤ انوار کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی، لہٰذا ان مقابلوں کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کا بورڈ قائم کیا جائے۔ پیپلز پارٹی سابق ایس ایس پی راؤ انوار کی پشت پناہی کرتی ہے یا نہیں یہ بات تو صرف اس سے ہی واضح ہوجائے گی کہ ’’راؤ انوار پیپلز پارٹی کے سندھ میں اقتدار شروع ہونے کے بعد سے یعنی 2008 سے ملیر کے ایس ایس پی بنے اور مختصر مدت کے لیے ہٹنے کے بعد دوبارہ یہیں تعینات ہوتے رہے۔ وہ ضلع ملیر کے ایس ایس پی سے زیادہ ’’ڈان‘‘ لگتے تھے۔ حکمران راؤ انوار سے اس قدر محبت کرتے رہے کہ انہوں نے اپنے ضلع میں جس تھانے کو اپنی حدود میں کرنا چاہا اسے ان کے حوالے کردیا گیا۔
تحریک انصاف کے نقیب اللہ کے ماورائے عدالت پولیس مقابلے میں ہلاکت پر تحقیقاتی کمیٹی کو نہ صرف متنازع بنانے کی کوشش کی بلکہ ان کی طرف سے اس کے دو ارکان پر جانبداری کے الزامات لگاکر کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے گریز بھی کیا گیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ راؤ انوار کی ٹیم کے لوگ بھی اس قدر بااثر ہیں کہ انہیں تحقیقاتی کمیٹی پولیس کے معروف طریقوں کے مطابق گرفت میں نہیں لے سکی؟
یقین کی حد تک شبہ تھا کہ راؤ انوار اب ملک سے فرار ہوچکے ہوں گے مگر ایسا نہ ہوسکا وہ دبئی فرار ہونے کی کوشش کرتے ہوئے اسلام آباد ائر پورٹ پر پکڑے گئے۔ راؤ انوار کا ای سی ایل میں نام شامل ہونے کے باوجود ملک سے باہر چلے جانا پورے سیکورٹی کے نظام پر بڑا سوال ہوتا جس کا جواب صرف حکمرانوں ہی کو نہیں بلکہ متعلقہ اداروں کو بھی دینا پڑتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت نقیب اللہ سمیت ڈھائی سو افراد کی ہلاکت کی تحقیقات کرائے۔ اور اس نکتے کی کھوج لگائی جائے کہ اب تک ان واقعات کے حوالے سے کیوں تحقیقات نہیں کرائی جاسکی؟
ایک خیال یہ بھی ہے کہ جن کو راؤ انوار سے جو کام لینا تھا وہ لے چکے اب وہ بھی اس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں اگر اس خیال کو مدنظر رکھا جائے تو پھر راؤ انوار کے ساتھ مکافات بھی ہوسکتا ہے۔ اللہ سب کی حفاظت کرے آمین۔