شہد جراثیم کو مار دیتا ہے

872

علم الادویہ میں انقلاب

جرمنی میں ایک دوا NORDISKE PROPOLIS کے نام سے تیار ہوتی ہے جو کیپسول، دانے دار شربت اور مرہم کی صورت میں برلن کی SANHELIOS کمپنی نے تحقیقات کے بعد مارکیٹ میں پیش کیے ہیں۔ اس کے اثرات کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ ڈنمارک کے پوفیسر لُونڈ کے انکشافات اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں محققین نے یہ پتا چلایا ہے کہ شہد میں ایک جراثیم کش عنصر PROPILS کے نام سے موجود ہے۔ لیبارٹری تجربات کے مطابق یہ پیپ اور سوزش پیدا کرنے والے جراثیم کو ہلاک کرنے کی استعداد دوسری تمام ادویہ سے زیادہ رکھنے کے علاوہ جسم کی قوتِ مدافعت میں اضافہ بھی کرتا ہے۔
مختلف لیبارٹریوں میں مشاہدات کے مطابق اسے ناک، کان، گلا، آلات انہضام، نظام تنفس اور اعصاب کی ہر قسم کی سوزشوں میں کسی بھی دوائی سے زیادہ مفید پایا گیا۔
یہ وہ منفرد دوائی ہے جو وائرس کو بھی ہلاک کرسکتی ہے۔ انفلوئنزا اور زکام میں اس سے نہ صرف کہ مریض تندرست ہوگئے بلکہ اس نے جھلیوں کی جلن کو فوراً دور کردیا۔
لندن کے مضافات میں کینٹ سے برطانوی اخبارات نے بتایا ہے کہ جوڑوں کی بیماریوں کے سیکڑوں پرانے مریض پروپالس کے استعمال سے شفایاب ہوگئے۔
قرآن مجید نے شہد میں شفا دینے والے عنصر کے بارے میں فرمایا:
(ان کے پیٹوں سے مختلف رنگ اور شکل کے سیال نکلتے ہیں جن میں لوگوں کے لیے شفا ہے)
قرآن مجید اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ شہد کی مکھی کے پیٹ سے مختلف قسم کے رطوبتیں خارج ہوتی ہیں۔ جن کو علم طب میں ENZYMES کہتے ہیں۔ یہ جو ہر مختلف امراض کے علاج میں مفید ہیں۔ اس آیت کا مفہوم تب معلوم ہوا۔ جب جرمن کیمیا دانوں نے شہد سے ROYAL JELLY نام کا عنصر علیحدہ کرلیا۔ اس انکشاف نے قرآن مجید کی صداقت اور افادیت کو واضح کردیا۔ اب اس آیت سے مراد شہد نہیں بلکہ وہ علیحدہ جوہر ہیں جو مکھی کے پیٹ سے پیدا ہوتے ہیں۔ کیونکہ شفا کا اصل منبع وہ ہیں۔
اس جوہر کو رائل جیلی کا نام اس لیے دیا گیا کہ چھتے میں بچے صرف ملکہ دیتی ہے۔ اس کے شہزادوں کی پرورش جس خوراک پر ہوتی ہے وہ شاہی خوراک ٹھہری اور اس مناسبت سے سیال کا نام ’’رائل جیلی‘‘ قرار پایا۔ دنیا میں جتنے بھی چرند اور پرند ہیں ان کے بچے جب پیدا ہوتے ہیں تو ان کا وزن جتنا بھی ہو بالغ ہونے کے بعد والے وزن سے تناسب میں ہوتا ہے۔ مثلاً انسانوں کا بچہ اگر آٹھ پونڈ کا پیدا اور بالغ ہونے پر اس کا وزن 160 پونڈ ہے تو مراد یہ ہوئی کہ بچے کا وزن بلوغت پر بیس گنا بڑھا۔ عام حیوانات کے بچے بیس سے پچیس گنا بڑھتے ہیں۔ شہد کی مکھی کا بچہ بڑا ہونے پر اپنے پیدائشی وزن سے 350 گنا بڑھتا ہے۔ پوری حیوانی دنیا میں کسی بچے کے اتنا بڑھنے کی کوئی مثال نہیں۔ یہ ایک منفرد واقعہ ہے۔ چوں کہ ان بچوں کی خوراک رائل جیلی ہے، اس لیے یہ لازمی نتیجہ نکلا کہ رائل جیلی جسمانی نشوونما پر خصوصی اثرات رکھتی ہے اور کمزوری کو دور کرتی ہے۔ ان معلومات کے بعد ڈاکٹروں نے کمزوری کے مریضوں پر اس جوہر کے وسیع مشاہدات کیے۔ جرمنی میں یہ جوہر بوتلوں اور گولیوں کی صورت تیار ہوا اور ہر جگہ سے مقبولیت کی سند پائی۔ ایک جرمن فرم کے تعاون کے ساتھ لاہور کے ایک دوا ساز ادارے نے شہد کے جوہر پر مبنی ایک مشروب تیار کیا مگر یہاں کے لوگ اس سے متاثر نہ ہوسکے اور سلسلہ ختم ہوگیا۔
موجودہ زمانے میں اس جوہر کو تیار کرنے کا سب سے بڑا مرکز عوامی جمہوریہ چین ہے۔ چین میں دوا سازی کی صنعت کے اشتراکی ادارہ ’’پیکنگ کیمیکل اینڈ فارما سوٹیکل ورکس‘‘ نے ’’پیکنگ رائل جیلی‘‘ کے نام سے خالص مشروب اور ٹیکے تیار کیے ہیں۔ تیار کرنے والوں نے اس کے تین اہم فوائد بیان کیے ہیں۔
-1 جب وزن روز بروز کم ہورہا ہو۔ جب بھوک اُڑ جائے، بیماری سے اُٹھنے یا زچگی کے بعد کی کمزوری کے لیے۔
-2 عام جسمانی کمزوری۔ دماغی اور جسمانی تھکن اور کمزوری۔
-3 پیچیدہ اور پرانی بیماریوں میں جیسے کہ جگر کی بیماریاں، خون کی کمی، وریدوں کی سوزش اور ان میں خون کا انجماد، جوڑوں کی بیماریاں اور گنٹھیا، عضلات کی انحطاطی بیماریاں DEGENRATIVE DISEASES معدہ کا السر۔
ایک عرصہ سے لاہور کے چند دو افروش اس چینی دوائی کو جس میں فی ٹیکہ 250 ملی گرام رائل جیلی کے علاوہ دو چینی بوٹیاں بھی شامل ہیں۔ درآمد کررہے ہیں۔ ہمارے دوستوں اور مریضوں نے کافی مقدار میں اسے استعمال کیا ہے۔ اور ہر شخص اس کے کمالات کا معترف پایا گیا۔ خلل اعصاب کے ایک پرانے مریض بتاتے ہیں کہ سیکڑوں وٹامنز اور ٹانک کھائے لیکن اس دوائی کا ایک ٹیکہ پینے کے بعد یوں معلوم ہوتا ہے کہ جسم سے کمزوری نکل کر نئی طاقت آگئی۔ میانوالی کے ایک دوست کے پیٹ میں دس سال سے السر تھا انہوں نے ہر قسم کی جدید اور قدیم ادویہ پر زرِ کثیر صرف کیا مگر بیماری کی شدت میں کوئی کمی نہ آئی۔ اطمینان سے ہضم ہوتا ہے اور اپنی روزمرہ کی زندگی معمول کے مطابق گزار رہے ہیں۔
قرآن مجید نے مکھی کے جسم سے خارج ہونے والے اس جوہر کو شفا کا مظہر قرار دیا ہے اور دنیا کے ہر گوشہ سے اس کی تصدیق میسر آرہی ہے۔
شہد کے ٹیکے
لاہور کے ایک دوا فروش ادارہ ’’شفا میڈیکوز‘‘ نے ایک مرتبہ جرمنی سے شہد سے بنے ہوئے ٹیکے درآمد کیے۔ ان ٹیکوں کے بارے میں دوا ساز ادارے کا دعویٰ تھا کہ یہ جسم سے کمزوری دور کرتے ہیں۔ جسم سے حساسیت یعنی ALLERGY کو ختم کرتے ہیں۔ حساسیت سے پیدا ہونے والی بیماریوں، خاص طور پر ایگزیما میں مفید ہیں جوڑوں کے دردوں میں معمولی تکلیف کے لیے ٹیکے گوشت یا ورید میں لگائے جائیں اور گر جوڑ سوج گئے ہوئے یا جوڑوں کی ہڈیاں گل رہی ہوں تو یہ ٹیکہ جوڑ کے اندر لگایا جائے۔
ان ٹیکوں کا نام M-2-WOELUM۔ انہیں جرمنی کے شہر کولون کی ویلم کمپنی نے تیار کیا اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے طبی رسالہ میں بتایا کہ انہوں نے شہد کو اس طرح استعمال کرنے کا راستہ قرآن مجید سے حاصل کیا۔
میو ہسپتال میں جوڑوں اور ہڈیوں کے معالج پروفیسر محمد ایوب خان ان کے اعجاز کے بڑے قائل تھے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے جوڑوں کی بیماریوں اور درجنوں معذوروں کو تندرست ہو کر پیروں پر چلتے دیکھا ہے۔ پروفیسر ایوب خان کے ریٹائر ہونے کے بعد لوگ نئی دوائوں کے پیچھے بھاگنے لگے اور یہ مفید، محفوظ اور سستی دوا بھلا دی گئی۔ جرمنی سے ڈاکٹر عمر رقمطراز ہیں کہ ٹیکے وہاں اب بھی بڑے مقبول ہیں اور ڈاکٹر اسے بڑے اعتماد کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔
امریکا میں پروفیسر اسٹوارنٹ نے لیبارٹری میں تپ محرقہ اور پیپ پیدا کرنے والے جراثیم کی مختلف قسموں کو شہد میں ڈالا۔ یہ حیرت انگیز مشاہدہ ہوا کہ جراثیم کی کوئی بھی قسم شہد میں زندہ نہ رہ سکی۔ (ماخوذ: طبِ نبوی و جدید سائنس)