راؤ انوار کو بھی پولیس پر اعتبار نہیں

449

نیا ڈراما شروع ہوگیا ہے بلکہ پرانے ڈراموں کا نیا ایکٹ کہا جاسکتا ہے۔ لوگ خوش ہورہے ہیں کہ راؤ انوار پھندے میں آگیا۔ اب پکڑا جائے گا، تمام مظلوموں کو انصاف ملے گا، مقدمہ چلے گا، راؤ انوار کو ہتھکڑیاں لگا کر لایا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ ہماری بھی دُعا اور خواہش ہے کہ قانون سے ماورا اقدامات کرنے والوں کو اس طرح عدالتوں میں لایا جائے۔ لیکن کیا ایسا ہوسکے گا؟ کیا پاکستانی سویلین حکمرانوں کے بس میں یہ ہے کہ وہ ایسا کرسکیں۔ راؤ انوار کون ہیں کس کے اشارے پر بے گناہوں کو اور معمولی جرائم میں ملوث لوگوں کو دہشت گرد قرار دے کر جعلی مقابلوں میں مارتے تھے۔ ان سوالوں کے جوابات کے بغیر کسی قسم کی خوش فہمی میں آنے کی ضرورت نہیں۔ اخبارات تو یہ بتارہے ہیں کہ راؤ انوار کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے لیکن حقائق یہ بتارہے ہیں کہ کوئی گھیرا تنگ نہیں ہورہا بلکہ پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلا پولیس افسر ہے جس کو اعلیٰ افسران، عدالت اور پورا ملک مجرم سمجھ رہا ہے، اسے تحقیقاتی ٹیم طلب کر رہی ہے اور مزے سے بیٹھا ہے۔ ٹی وی چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ اس کے اور اس کی ٹیم کے فون بند ہیں۔ اگر فون بند ہیں تو کیا وہ غار میں چھپ گئے ہیں؟ گھر کسی کو نہیں معلوم۔ یہ خبر بھی آچکی کہ وہ دبئی فرار ہورہا تھا لیکن ناکام ہوگیا۔ اب ای سی ایل سی میں نام بھی آگیا ہے۔ اگر پولیس جرائم پیشہ لوگوں کے بارے میں معلومات رکھتی ہے تو اس کے مختلف شعبے اپنے لوگوں کے بارے میں بھی اچھی طرح سے معلومات رکھتے ہیں۔ لہٰذا یہ جو خبریں اخبارات میں شائع ہورہی ہیں کہ راؤ انوار ساتھیوں سمیت روپوش ہوگئے، بیرون ملک چلے گئے یا محفوظ ٹھکانے میں بیٹھے ہیں یہ سب عوام کی توجہ دوسری جانب مبذول کرانے کے لیے ہے کہ لوگ یہی سمجھتے رہیں کہ حکومت تو راؤ انوار کو پکڑنا چاہتی ہے لیکن راؤ انوار چھپے پھر رہے ہیں۔ اس خیال کی اصلاح بھی کرلی جائے وہ چھپے نہیں بلکہ کھلے پھر رہے ہیں۔
اب عدالت عظمیٰ نے راؤ انوار کو 27 جنوری کو طلب کیا ہے لیکن سوال یہی ہے کہ کیا 27 جنوری بھی اسی طرح گزر جائے گی۔ یہی راؤ انوار تھے جو لوگوں کے بارے میں محض شبہے پر ان کے گھروں پر چھاپا مارتے اور اُٹھا کر لے جاتے تھے۔ رینجرز اور پاکستانی خفیہ ایجنسیاں محض شبہے پر لوگوں کو گھر سے اُٹھا کر لے جاتے اور یہ کہا جاتا کہ 20 منٹ میں آجائے گا۔ صبح آجائے گا۔ یا ایک دو دن میں کلیئر کردیں گے پھر دو، دو سال تک نہیں ملتا تھا۔ بعض کو بعد میں راؤ انوار مقابلے میں مار دیتے تھے۔ اس راؤ انوار کے جعلی مقابلے کے کئی ثبوت سامنے آنے کے باوجود کوئی ایجنسی حرکت میں نہیں آئی۔ ہے ناں گڑ بڑ۔ لیکن اس گڑ بڑ کو گڑ بڑ کی طرح نہیں سمجھا جارہا ہے بلکہ ٹی وی چینلوں کی چیختی دھاڑتی رپورٹنگ کی وجہ سے کسی کو سمجھ میں ہی نہیں آرہا کہ ہو کیا رہا ہے۔ کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ کسی ٹی وی چینل کا رپورٹر ہی راؤ انوار کو گرفتار کرلے گا، جے آئی ٹی بن گئی ہے، عابد قائم خانی کو گرفتاری کا ٹاسک دے دیا گیا ہے اور وہ کہتے سنے گئے ہیں کہ کسی بھی وقت گرفتار کرلوں گا۔ کب مجرموں کو یا ملزموں کو ایسے ہی گرفتار کیا جاتا ہے۔ چند دن قبل جامعہ پنجاب میں اسلامی جمعیت طلبہ کے بک فیئر پر حملہ کرنے والوں کو تو اب تک تلاش کررہی ہے۔ اس حملے پر احتجاج کرنے والوں کو ایسے گرفتار کیا گیا جیسے راؤ انوار کو پکڑا جانا چاہیے۔ خدا جانے راؤ انوار کو کب اور کیسے پکڑا جائے گا۔ لیکن جو کچھ ہورہا ہے وہ کسی کو پکڑنے کے لیے نہیں محفوظ راستہ دینے کے لیے ہورہا ہے۔ جس طرح گلیوں محلوں میں رات کو چوکیدار سیٹیاں بجاتے ہیں اس کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ وہ کسی چور کو پکڑنا چاہتے ہیں بلکہ ان سیٹیوں کا مقصد ہوتا ہے کہ جو کوئی واردات کرنے کے لیے آیا ہوا ہے یا تو اِدھر اُدھر ہوجائے یا فی الحال چھپ جائے۔ راؤ انوار کے معاملے میں بھی یہی ہورہا ہے، راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے چھاپے، پولیس ٹیم اسلام آباد روانہ۔ عابد قائم خانی تیار، خصوصی ٹیم تیار ہے۔ ایک ایک نقل و حرکت سے اخبارات کے ذریعے راؤ انوار کو مطلع کیا جارہا ہے۔ تا کہ خوامخواہ میں مڈ بھیڑ نہ ہوجائے، ہے تو اپنا بھائی۔ کیا یہ سمجھ رکھا ہے کہ راؤ انوار کا کوئی نیٹ ورک نہیں ہے، ایسا تو ہرگز نہیں ہے، ان کے سرکاری موبائل بند ہیں تو کیا ہوا بہت سے دوسرے لوگوں کے موبائل ان کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ پولیس راؤ انوار کو جیو کے خبرنامے کے توسط سے طلب کررہی تھی وہ پھر بھی نہیں آئے، ایک تبصرہ راؤ انوار کے حوالے سے سامنے آیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ’’مجھے پولیس پر اعتبار نہیں‘‘۔ اس جملے نے پورے پولیس نظام کی قلعی کھول دی ہے جب اتنے سینئر رینک کے پولیس افسر کو پولیس پر اعتماد نہیں ہے تو عام آدمی کہاں کھڑا ہے۔ اس کو تو پولیس کو دیکھتے ہی بھاگ کھڑا ہونا چاہیے، وہ کیوں پولیس کے سامنے پیش ہوں گے اور پولیس بھی ایسی جیسے راؤ انوار بلکہ ایسی پولیس جس پر راؤ انوار بھی اعتماد نہ کریں۔ اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ پورے ملک کی پولیس ہی ناقابل اعتبار ہے اور یہ محض تبصرہ یا جملہ معترضہ نہیں بلکہ اس کے پس پشت بہت تلخ حقائق ہیں۔ یہ مسئلہ بھی حل کرنا ہوگا۔ راؤ انوار پر آج سیاسی پشت پناہی کا الزام ہے بلکہ الزام کیا اب تو وزرا نے اعتراف کرلیا کہ تعلقات ہیں۔ انور سیال کہتے ہیں کہ تعلقات کا مطلب لائسنس
نہیں۔ آپ تعلقات بنائیں کام کرائیں، لائسنس یہ لوگ خود بنالیتے ہیں۔ جناب سیال صاحب ایک سوال ہر زبان پر ہے۔ راؤ انوار کا کیا ہوگا؟ کوئی چاہتا ہے کہ سرعام پھانسی دی جائے۔ کوئی کہتا ہے کہ سب سے زیادہ جعلی مقابلے جس علاقے میں ہوئے ہیں اس کا بھی انکاؤنٹر کیا جائے۔ ایک محسود نے کہا کہ اسے مینار پاکستان سے الٹا پھینکا جائے۔ غرض ہر ایک کے سامنے ایک سزا ہے، لیکن سزا دینے کا کوئی نہ کوئی آئینی طریقہ تلاش کرنا ہوگا۔ ایسا آئینی طریقہ جس میں راؤ انوار کو سزا ہوجائے۔ فی الحال ایسا کوئی طریقہ سمجھ میں نہیں آرہا۔ کیوں کہ اگر راؤ انوار کو گرفتار کرکے مقدمہ چلایا گیا اور وہ بھی کھلی عدالت میں تو دو خطرناک باب کھلیں گے ایک تو سیاسی سرپرستوں کا۔ لیکن یہ اتنا اہم اور خطرناک نہیں انہیں بھگت لیا جائے گا۔ اصل خطرناک باب وہ ہے جس میں داخل ہونے کا راستہ ہے واپسی کا نہیں۔ راؤ انوار کے چار سو کے لگ بھگ مقابلوں میں سے 80 فی صد شکار آئے کہاں سے تھے۔ اگر وہ جواب میں نام بتادیتے ہیں تو بات ختم لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ بس سارے شور شرابے کا مقصد۔۔۔ یہ ہے کہ راؤ انوار ہوشیار۔۔۔ ہم آرہے ہیں۔ بچے بھی تو کھیلتے تھے چھپن چھپی۔ ہم آرہے ہیں۔۔۔ چھپی اپ۔ ایک ہفتے سے تو یہی ہورہا ہے۔