زری پالیسی ریٹ کو 25 بی پی ایس بڑھاکر 6 فیصد کرنے کا فیصلہ , اسٹیٹ بینک

809

 

پاکستان کی معاشی نمو گذشتہ گیارہ برسوں کی بلند ترین سطح حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ اوسط عمومی مہنگائی اسٹیٹ بینک کی پیش گوئی کی حدود کے اندر ہے لیکن قوزی مہنگائی بڑھتی رہی ہے۔ توقع ہے کہ مالی سال 18ء کی پہلی ششماہی کا مالیاتی خسارہ پچھلے سال کی شرح 2.5 فیصد کے قریب رہے گا۔ برآمدی نمو میں نمایاں بہتری رہی ہے اور ترسیلات تھوڑی زیادہ ہیں۔ تاہم زیادہ تر درآمدات کی بلند سطح کی وجہ سے جاری کھاتے کا خسارہ دباؤ میں ہے۔ توقع ہے کہ دسمبر 2017ء میں شرح مبادلہ کی ایڈجسٹمنٹ سے بیرونی محاذ پر دباؤ کم کرنے میں مدد ملے گی۔

 

حقیقی شعبے میں پیش رفت سے ظاہر ہے کہ شعبہ زراعت کی کارکردگی مسلسل دوسرے سال بہتر رہے گی۔ مکئی کے سوا خریف کی تمام فصلوں کی پیداوار مالی سال 17ء کی سطح سے تجاوز کرگئی ہے۔ اسی طرح بڑے پیمانے پر اشیا سازی (LSM) کے شعبے میں جولائی تا نومبر مالی سال 18ء کے دوران 7.2 فیصد کی بھرپور وسیع البنیاد نمو دیکھی گئی جبکہ گذشتہ سال کی اسی مدت میں 3.2 فیصد نمو ہوئی تھی۔ اگرچہ چینی، پٹرولیم مصنوعات اور کھاد کے مخصوص شعبہ جاتی مسائل کی بنا پر بڑے پیمانے کی اشیا سازی کی نمو کی رفتار کچھ کم ہوسکتی ہے تاہم امکان ہے کہ مجموعی صنعتی سرگرمیاں مضبوط رہیں گی۔ انفراسٹرکچر اور سی پیک سے متعلق سرمایہ کاری سے تعمیرات اور منسلکہ صنعتوں کو فائدہ ہوا ہے اور توقع ہے کہ ان کی بلند نمو کی رفتار قائم رہے گی۔ شعبہ خدمات پر شعبہ اجناس کی حرکیات کے اثرات کو شامل کریں تو تخمینے کے مطابق حقیقی جی ڈی پی نمو 5.8 فیصد کے لگ بھگ رہے گی جو مالی سال 17ء کی شرح سے خاصی زیادہ لیکن مالی سال 18ء کے سالانہ ہدف 6 فیصد سے کچھ کم ہے۔ اس کا بڑا سبب زیر کاشت رقبے میں کمی کی وجہ سے گندم کی ہدف سے کم پیداوار کی توقعات ہیں۔

 

مالی سال 18ء کی پہلی ششماہی میں اوسط عمومی مہنگائی 3.8 فیصد ہے۔ اس دوران قوزی مہنگائی (غیرغذائی غیر توانائی) مسلسل بلند راہ پر گامزن رہی اور سال کی پہلی ششماہی میں 5.5 فیصد تک پہنچ گئی جبکہ پچھلے سال 4.9 فیصد تھی۔ اس کے ہمراہ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کے موخر اثر اور تیل کی بڑھتی ہوئی عالمی قیمتوں کی بنا پر آئندہ مہینوں میں مہنگائی بڑھنے کا امکان ہے۔ ان تمام حالات کے اثرات کو پیش نظر رکھا جائے تو اگرچہ مالی سال 18ء کے لیے اوسط مہنگائی اب بھی 4.5 سے 5.5 فیصد کی حدود میں رہنے کا تخمینہ ہےتاہم امکان ہے کہ مالی سال کے آخر میں سال بسال مہنگائی آہستہ آہستہ 6 فیصد کے سالانہ ہدف کی طرف بڑھے گی۔

 

یکم جولائی تا 12 جنوری مالی سال 18ء کے دوران زر وسیع کی رسد 1.9فیصد کی معمولی شرح سے بڑھی۔ یہ خالص بیرونی اثاثوں میں کمی اور اخراجات کو قابو میں رکھنے کی حکومتی کوششوں کی عکاسی کرتا ہے۔بلند ٹیکس وصولی اور صکوک اور یوروبانڈ کے اجرا سے ہونے والی آمدنی کے نتیجے میں یکم جولائی تا 12 جنوری مالی سال 18ء کے دوران خالص میزانیہ قرض گیری میں کمی آئی جو 401.9 ارب روپے تھی جبکہ پچھلے سال کی اسی مدت میں یہ رقم 470.4 ارب روپے تھی۔ مزید یہ کہ چینی کی کچل کاری کے موسم نے بھی نجی شعبے کے قرضے کی طلب کو معتدل کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔

 

بیرونی محاذ پر مالی سال 18ء کی پہلی ششماہی کے دوران برآمدی وصولیوں میں 10.8 فیصدنمو ہوئی جو گذشتہ سات برسوں کی بلند ترین سطح ہے، جبکہ مالی سال 17ء کی پہلی ششماہی میں 1.4 فیصد کمی ہوئی تھی۔ سال کی پہلی ششماہی میں کارکنوں کی جانب سے ترسیلاتِ زر میں بھی نمو  (2.5 فیصد) دیکھی گئی جبکہ گذشتہ برس کی اسی مدت میں یہ کم ہوئی تھیں۔ تاہم ان مثبت عوامل کے سازگار اثرات اشیا و خدمات کی درآمدات میں بلند نمو کے تسلسل کی وجہ سے  زائل ہو گئے۔ سال کی پہلی ششماہی میں جاری کھاتے کا خسارہ بڑھ کر 7.4  ارب ڈالر تک پہنچ گیا، جو گذشتہ برس کی اسی مدت کے خسارے کا 1.6 گنا تھا۔ مالی کھاتوں میں پیش رفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس خسارے کابیس فیصد بیرونی براہِ راست سرمایہ کاری کی رقوم کی بھرپور آمد سے اور بقیہ حصے  کو سرکاری رقوم اور ملک کے اپنے وسائل سے پورا کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں آخر جون 2017ء سے اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے سیال ذخائر  میں  2.6 ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی اور 19 جنوری 2018ء تک یہ 13.5 ارب ڈالر کی سطح پر آ گئے۔

 

آگے چل کر دسمبر 2017ء میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی، برآمدی پیکیج، ریگولیٹری ڈیوٹیز میں ردوبدل کے موخر اثرات، سازگار بیرونی ماحول اور کارکنوں کی ترسیلات زرِ میں متوقع اضافے سے ملک کے جاری کھاتے کے خسارے میں بتدریج کمی آئے گی۔ اگرچہ تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافہ اس تجزیے کے لیے بڑا خطرہ ہے، تاہم قلیل مدت میں ادائیگیوں کے مجموعی توازن کا انحصار سرکاری رقوم کی آمد پر ہے۔

 

پاکستان کی معیشت کے چار کلیدی عوامل میں نومبر 2017ء سے اب تک اہم تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں جو پالیسی ریٹ سے متعلق فیصلے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اوّل، پاکستانی روپے کی قدر میں لگ بھگ 5 فیصد کمی ہوئی ہے۔ دوم، تیل کی قیمتیں تقریباً 70 ڈالر فی بیرل کے آس پاس ہیں۔ سوم، کئی مرکزی بینکوں نے اپنی پالیسی ریٹس میں اضافہ کرنا شروع کردیا ہے جو ان کی کرنسیوں کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی شرح سود کےتفرق (differentials) پر منفی اثر ڈال رہا ہے۔ چہارم، کئی اظہاریوں سے پتہ چلتا ہے کہ پیداواری فرق خاصا کم ہوگیا ہے جس سے طلب کے دباؤ میں اضافے کا اظہار ہوتا ہے۔

 

ان حالات کی بنیاد پر زری پالیسی کمیٹی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ معیشت کو اوورہیٹنگ سے بچانے اور مہنگائی کو ہدف کی شرح سے متجاوز نہ ہونے دینے کی خاطر یہ ایسا پالیسی فیصلہ کرنے کا وقت ہے کہ وسط تا طویل مدت میں نمو اور استحکام میں توازن قائم ہو۔ چنانچہ زری پالیسی کمیٹی نے پالیسی ریٹ کو 25 بی پی ایس بڑھاکر 6 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

 

**